Column

دنیا ترقی اور ہم پستی کی سطح پر

روہیل اکبر

دنیا ترقی کی بلندیوں کی طرف جارہی ہے اور ہم پستیوں کی انتہا کو چھو رہے ہیں ہم آٹے چینی کی لائنوں میں پائوں تلے آکر مر رہے ہیں، جو بچے ہوئے ہیں ان میں سے کچھ ڈاکو بن کر لوگوں کے ہاتھوں کٹ، جل اور مر رہے ہیں، کچھ ڈاکوئوں کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں اور ان سب باتوں سے ہٹ کر ہماری ملکی سیاست اس وقت سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کے گرد گھوم رہی ہے ایک طرف وہ لوگ ہیں جو انتخابی عمل سے لیکر پارلیمنٹ تک اور اس سے پہلے عوام سے الیکشن کمیشن تک جھوٹ بول بول کر نہیں تھکتے اور پھر انہوں نے اپنے آپ کو اتنی آزادی دے رکھی ہے کہ ایوان کے اندر جو مرضی بولتے رہیں ایک دوسرے کو غدار اور ننگا کرنے کے ساتھ ساتھ اداروں کی بھی ایسی تیسی کرتے پھریں انہیں کوئی پوچھ نہیں سکتا اور دوسری طرف ہمارے دوست اور ہمسایہ ملک چین نے سمندر کے اندر راستہ بنا لیا ہم ہیں کہ اپنی خوراک پوری نہیں کر پا رہے بلکہ اپنی ناقص پالیسیوں سے 4ارب ڈالر سے زائد کی خوراک ضائع کر دیتے ہیں اس لیے کہ ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ آئین سپریم ہے اور پارلیمنٹ مقدس گائے ہے، سب سے پہلے یہ دو چھوٹی چھوٹی خبریں ہیں کہ چین کے شمال مشرقی صوبہ لیاننگ کے ساحلی شہر ڈالیان میں زیر سمندر ایک سڑک سرنگ کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا ہے، یہ سرنگ ڈالیان بے تلے دو طرفہ 6لین پر مشتمل اربن ایکسپریس وے ہے، جو چین کے شمالی علاقے میں پہلی زیرسمندر ٹیوب سرنگ ہے۔5.1کلومیٹر طویل سرنگ میں ٹریفک کی رفتار 60کلومیٹر فی گھنٹہ ہے، اس سرنگ کی تعمیر میں تقریبا 4برس لگے اور اب سرنگ کو ملانے والی سڑک فعال ہوچکی ہے، جو ڈالیان خلیج کے شمالی اور جنوبی حصوں کو باہمی طور پر منسلک کرتی ہے اور دوسری ہماری خبر بھی ملاحظہ فرما لیں کہ وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق کی دستاویزات میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان میں شدید غذائی قلت کے باوجود ہر سال 4ارب ڈالر کی خوراک ضائع کردی جاتی ہے پاکستان میں خوراک کی سالانہ ملکی پیداوار کا تقریباً 26فیصد ضائع ہوتا ہے جس کا تخمینہ تقریباً 4ارب ڈالر کے برابر ہے اور حجم کے اعتبار سی یہ19.6ملین ٹن بنتی ہے یہ خوراک ہر سال ہم اپنی کم عقلی کی وجہ سے کروڑوں ٹن غذا ضائع مختلف طریقوں سے ضائع کرتے ہیں، جن میں چھانٹی کے عمل کے دوران، سائز، رنگ کے معیار پر پورا نہ اترنے والی تازہ خوراک اکثر سپلائی کے سلسلے سے نکال کر ضائع کردی جاتی ہے۔ غذائی اشیا کی زیادہ مقدار باورچی خانوں اور کھانے پینے کے مراکز پر ضائع ہو جاتی ہے۔ باورچی خانوں میں اکثر غذائی اشیا استعمال نہیں ہوتیں یا چھوڑ دی جاتی ہیں، اکثر گھروں اور کھانے پینے کے مراکز میں غذائی اشیا ضرورت سے زائد پکائی جاتی ہیں جبکہ پاکستان میں 37فیصد آبادی خوراک کے عدم تحفظ کا شکار ہے، 5برس تک کی عمر کے 40فیصد بچوں کی نشو و نما ہی ٹھیک نہیں ہو پاتی۔ پاکستان دنیا کے افلاس زدہ 121ممالک کی فہرست میں 99ویں نمبر پر ہے، ایک پاکستانی گھرانہ اوسطاًاپنی ماہانہ آمدن کا 50.8فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہے آئے روز لاکھوں کی تعداد میں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے گر رہے ہیں۔ حکمرانوں کی منفی پالیسیوں کی وجہ سے غربت کی سطح میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ حکمرانوں کی کارکردگی سے لگتا ہے وہ عوام کو ریلیف نہیں دینا چاہتے اور نہ ہی ان کے پاس غربت اور مہنگائی ختم کرنے کا فارمولا ہے، روزانہ کی بنیاد پر ایک سال میں حکمرانوں نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کر دیا، روزمرہ کی اشیا غریب کی قوت خرید سے دور کردی گئی اور سب اچھا ہے کی بانسری بجائی جا رہی ہے اور دوسری طرف پارلیمنٹ کی آڑ لے کر سپریم کورٹ کی تذلیل کی جا رہی ہے، عدلیہ کے وجود کی نفی کر کے کس ترقی اور استحکام کی بات کی جا رہی ہے، غیر شفاف کردار والے پارلیمنٹیرین کی وجہ سے پارلیمنٹ کی عزت پر حرف آتا ہے۔ قومی ادارے کی تذلیل بند کی جائے۔ ایسی جمہوریت قوم قبول نہیں کرتی جس میں منی لانڈرنگ اور فرد جرم کے مجرم قومی اداروں کو دھمکیاں دیں، اقاموں کی وجہ سے قومی معیشت آج کومے میں ہے۔ آئین کی بالادستی کیلئے عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ہر ایک کیلئے ضروری ہے حکومت سپریم کورٹ کے خلاف جاری مہم بند کرے ورنہ ملک مزید انارکی کی طرف جائے گا عوام دشمن فرسودہ نظام نے ترقی کا پہیہ جام کر رکھا ہے سیاسی بد انتظامی کی وجہ سے معاشی بدحالی، بیروزگاری، بدامنی اور کرپشن میں بھی اضافہ ہو چکا ہے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر آئین کی باتیں کرنے والوں کو یہ بھی علم ہوگا کہ آئین پاکستان کا آرٹیکل 25Aپانچ تا سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی یقینی بنانے کی ضمانت فراہم کرتا ہے لیکن بدقسمتی سے ملک میں حکومتیں آئین کے مطابق بچوں کو تعلیم کی سہولیات دینے میں ناکام رہی ہیں المیہ یہ ہے کہ سیاسی ہمدردیوں کی بنیاد پر نااہل اور کرپٹ افراد کو محکمہ تعلیم میں اہم ترین ذمہ داریوں پر فائز کیا جاتا رہا۔ جس کی وجہ سے سرکاری تعلیمی ادارے زبوں حالی کا شکار ہیں اس وقت ملک کے سرکاری تعلیمی اداروں میں یکم اپریل2023 سے نئے تعلیمی سال کا آغاز ہوچکا ہے، لیکن خیبرپختونخوا میں تا حال بڑی تعداد میں بچوں کے ہاتھوں میں کتابیں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے طلبا و طالبات اور والدین پریشان ہیں۔ اس سلسلے میں ایک خبر گردش کر رہی ہے کہ خیبرپختونخوا میں کتابوں کی پرنٹنگ میں تاخیر کی وجہ ٹیکسٹ بک بورڈ پشاور کے ذمہ دارا ن کی بدعنوانیاں اور کرپشن ہیں، اس کی بھی مکمل تحقیق ہونی چاہیے، کرپشن میں ملوث لوگوں کو آئین اور قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے اور حکومت خیبرپختونخوا تعلیمی اداروں میں کتب کی فراہمی کو یقینی بنائے جبکہ کئی کئی سال سے اساتذہ کی ترقیوں کا عمل بھی سرد خانے میں پڑا ہوا ہے ٹیچر جس سکیل میں آتا ہے اسی میں ریٹائر ہو کر گھر چلا جاتا ہے یہ بہت بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے پنجاب کے نگران وزیر اعلیٰ سمیت دوسرے صوبوں کے وزرا اعلیٰ اس طرف بھی توجہ دیں کیونکہ سرکاری ملازمت میں ترقی ملنے سے نئے عزم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے خیر محسن نقوی اس حوالہ سے بہت کچھ کر رہے ہیں ابھی انہوں نے نرسنگ کے شعبہ سے وابستہ29نرسنگ سٹاف کو گریڈ 17میں ترقی دیدی ہے جو اب ہیڈ نرسز کے طور پر کام کرینگی کیونکہ سرکاری ملازمت میں ترقی ملنے سے نئے عزم کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملتا ہے یہ نرسز 1998سے چارج نرسز کے طور پر خدمات سر انجام دے رہیں تھیں ہمارے ہاں نہیں بلکہ دنیا بھر میں نرسنگ کا شعبہ چیلنجز اور مشکل کے ماحول میں کام کرنے کا نام ہے جس میں ہماری خواتین نے ہمیشہ ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہوئے ڈاکٹرز کے شانہ بشانہ کامیابیاں حاصل کی ہیں اور بالخصوص کرونا، ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کے دوران شاندار خدمات سر انجام دی ہیں ایم ایس ڈاکٹر خالد بن اسلم اور پروفیسر الفرید ظفر نے بھی ان نرسز کی گریڈ17میں ترقی کو خوش آئند امرقرار دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کے بعد یہ نرسز ادارے کی بہتری اور مریضوں کی زیادہ خدمت کر سکیں گی اور انہیں یہ کامیابی مریضوں کی دعائوں اور انتھک محنت کی بدولت ملی ہے اور انشاء اللہ مستقبل میں مزید کامیابیاں حاصل کرینگی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button