سوشل میڈیا کی غیر معمولی مقبولیت کے بعد ایک جانب تو یہ جعلی خبروں اور افواہوں کا مرکز بنتا جارہا ہے تو دوسری جانب عوام نے دل کی بھڑاس نکالنے کیلئے اسے نفرت انگیز زبان سے بھر دیا ہے۔ اسی بنا پر ٹویٹر نے اعلیٰ تعلیم یافتہ پروفیسرز سے اس کا حل پیش کرنے کی درخواست کی ہے۔ ٹویٹر نے جامعات کے اساتذہ اور پروفیسروں سے کہا ہے کہ وہ پورے ٹویٹر کا ڈیجیٹل آڈٹ کرکے بتائیں کہ آخر غیر مہذب زبان، غلط خبریں اور خود ساختہ کارستانیاں کہاں سے پھوٹ رہی ہیں۔ اس کیلئے ٹویٹر نے پروفیسرز سے قابل عمل منصوبوں کی تجاویز پیش کرنے کا بھی کہا ۔ اب تک مختلف ماہرین نے ٹویٹر کو 230 عملی منصوبے یا پروپوزل پیش کئے ہیں جن میں سے نیویارک کی سیراکیوس یونیورسٹی کے دو اور اٹلی کی بوکونی یونیورسٹی کے دو پروفیسروں کے پروپوزل قبول کئے گئے ہیں۔ یہ تمام حضرات ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی ہیں۔ ان جامعات کے تین پروفیسر لائیڈن یونیورسٹی، ہالینڈ کے پروفیسر ریبیکا ٹرامبے کی نگرانی میں کام کریں گے جو سیاست اور سوشل میڈیا کے ماہر ہیں۔ فیس بک ہو، واٹس ایپ ہو یا ٹویٹر، یہاں منفی باتوں کا ایک دائرہ اس وقت بنتا ہے جب کچھ ہم خیال لوگ کوئی بحث شروع کرتے ہیں اور اختلاف پر وہاں شروع ہونے والی بحث منفی رخ پر چلی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا میں اس کیفیت کو ایکو چیمبر کہا جاتا ہے جہاں کئی دنوں تک غلط زبان اور گالیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ماہرین یہ بھی دیکھیں گے کہ ٹویٹر پر کون لوگ ہیں جو ایکو چیمبر سے جڑے رہتے ہیں اور کون ہیں جو اس کا رخ دوسری مثبت سمت میں موڑنا چاہتے ہیں۔ یہ ٹیم ایسے الگورتھم اور سافٹ ویئر بھی بنائے گی جو دیکھے گا کہ ٹویٹر پر کب کوئی بحث غیر موزوں ہوگئی اور اس کے بعد نفرت میں بدل کر زہریلا رخ اختیار کر گئی۔ ساتھ میں یہ بھی دیکھا جائے گا کہ آخر یہ کس طرح سے ہوتا ہے اور اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہیں۔ اگر ایک بار ٹویٹر غیر مہذب اور نفرت انگیز گفتگو یا بحث کے درمیان فرق معلوم کر لے تو اس سے نفرت والی بحثوں کو روکا جاسکتا ہے۔