ColumnNasir Naqvi

ادبی قومی اداروں کی بے ادبی ۔۔ ناصر نقوی

ناصر نقوی

ادبی قومی اداروں کی بے ادبی

کہتے ہیں ’’باادب بامراد، بے ادب بے مراد‘‘ پھر بھی ہمارا اخلاق تنزلی کا شکار ہے۔ الزام ہے کہ نئی نسل کو ادب وآداب سے کوئی سروکار نہیں۔ زندگی ماضی کے کچھوے کی چال کی قائل نہیں رہی، بلکہ جدید تقاضوں اور سہولیات کے ساتھ برق رفتار ہو چکی ہے۔ جنہیں روٹی روزی کی فکر ہے وہ اس میں دبلے ہوئے جا رہے ہیں کیونکہ دنیا بھر کے معاشی حالات، دشمن جاں کرونااور دوست نما دشمن سیاستدانوں اور حکمرانوں نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اللہ کی گراں قدر نعمتوں کی سرزمین پاکستان زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی اشیائے ضروریہ گندم اور دیگر اشیاء غیر ممالک سے منگوانے پر مجبور، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ حالت عوامی ہڈدھرمی سے ہوئی کہ حکمرانی طاقت مغرور منتخب نمائندوں کی غلط منصوبہ بندی سے ؟ کوئی بتائے گا بھی نہیں ، اس لیے کہ اس جرم میں سب کے سب برابر کے شریک ہیں اگر پکڑ بھی لیں تو ایسی ایسی تاویلیں پیش کی جائیں گی کہ ہم اور آپ پریشان ہو جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کے دور سے ہی اسے جاگیرداروں، سرمایہ داروں نے اپنی گرفت میں لے لیا۔ جب یہ بے ڈھنگی چال مفاد پرستوں کو نظر آئی تو انہوں نے بھی غریب اور بے سروسامانی کی حالت میں آزاد ہونے والے پاکستان کو غریب کی جورو سمجھ لیا۔ پھر قائداعظمؒ کے انتقال کے بعد اقتدار کے ایوانوں میں جو کھیل کھیلا گیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن ہم 75سال گزرنے کے بعدبھی حقائق اپنے مستقبل کے معماروں کو بتانے کیلئے تیار نہیں ۔ اگر حقائق سے پردہ چاک کرنے کی کسی میں ہمت ہوتی تو یقیناً جان و مال کی قربانیوں اور جہد مسلسل سے حاصل کرنے والے وہ کچھ کر جاتے کہ دنیا حیران ہو تی لیکن ہمارے ابتدائی دنوں کے ذمہ داروں نے جھوٹ، فریب اور تضاد بیانی سے کام لیا، زیادہ توجہ زمینوں اور جائیدادوں کی الاٹمنٹ پر دی۔ لیاقت علی خان نے بطور وزیراعظم دارالحکومت کراچی کو آباد کر لیا۔ درپردہ عزائم یہی تھے کہ ان کے پسندیدہ ، لائق اور قابل لو گ ان کے نزدیک رہیں، اسی غلطی کا خمیازہ آج تک قوم بھگت رہی ہے۔ پہلے شاطر ایوب خان کی اقتدار پر نظریں جم گئیں تو انہوں نے امریکہ بہادر کی نوکری چاکری کوترجیح دے کر اپنے اقتدار کی راہ ہموار کی۔ اب کہانی حکومت و اقتدار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن ان بے اصولیوں سے جو روایات قائم ہوئیں ان سے ابھی تک جان نہیں چھڑائی جا سکی۔ 1973ء کا متفقہ آئین موجود، ہر دور میں من مرضی کی ترامیم بھی ہوئیں اور آئین کی پاسداری کا ڈنکا بھی بجایا گیا۔ حالات سب کے سامنے ہیں۔ ایک غریب، ترقی پذیر ملک خداداد صلاحیتوں سے زیرو سے ہیرو بھی بنا۔ دنیائے اسلام کی پہلی اور ساتویں عالمی ایٹمی طاقت بھی بن گیا۔ پھر بھی نااہل حکمرانوں، بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ نے مل کر اسے اس مقام پر پہنچا دیا کہ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران مقدر بن گیا۔ ہر محب وطن پریشان ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو کیا بنے گا؟ لیکن اشرافیہ دو دونی چار اور سیاستدان ایک دوسرے پر الزامات تھوپ کر سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ جب معاملات الجھتے ہیں تو پارلیمنٹ جانے کی بجائے عدلیہ کے دروازوں پر دستک دے کر وقت گزاری کا فارمولا حاصل کر لیتے ہیں۔ نالائقی کی انتہا اس سے زیادہ اور کیا ہو گی کہ قانون پارلیمنٹ بناتی ہے اور وضاحت کیلئے عدلیہ کے دروازے پر ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سوچیں ایسا کیوں ہوا؟ یقیناً مختلف لوگوں کی مختلف آرا ہو سکتی ہیں لیکن میری ’’جمع تفریق‘‘ چیخ چیخ کر یہ انکشاف کر رہی ہے کہ جب قومی اداروں کو استحکام نہیں دیا جائے گا یہ الٹی گنگا اسی طرح بہتی رہے گی۔ حق دار کو اس کا حصہ نہیں ملے گا بلکہ اسے دھونس، دھاندلی سے مفادات کی خاطر طاقت ور طبقہ استحصال کا نشانہ بناتا رہے گا۔ دراصل شعور کا پہلا درجہ خاموش رہنے کی عادت اپنانا، شعور کا دوسرا درجہ بدتمیزی پر جواب نہ دینا اور شعور کے تیسرے درجے پر بداخلاقی کا جواب اخلاق سے دینا ہوتا ہے۔ ہماری پرانی نسل کو بڑی حد تک یہ سبق یاد تھا۔ یہ مصلحت پسندی اور اخلاقیات بھی ہمیں لے ڈوبی۔ جب بولنا تھا تو ہمارے بڑے چپ رہے کہ اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھٹنے پائے اور حالات اس قدر بگڑے کہ ’’اخلاق‘‘ نے راہ فرار اختیار کر لی اور صرف دامن ہاتھ میں رہ گیا۔ لہٰذا صورت ایسی سنجیدہ اور پیچیدہ ہو چکی ہے کہ ہر طرف بے یقینی کی فضاء اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں، قومی اداروں کو مستحکم کرنے کی بجائے ہم اپنی پسند ناپسند کی تقرری سے انہیں بھی کمزور کرتے چلے جا رہے ہیں جس طرح بچے غیر سیاسی ہوتے ہیں، کبھی قومی ادارے بھی غیر سیاسی ہوا کرتے تھے لیکن پہلے مارشل لائی ادوار نے میرٹ اور روایات کو پس پشت ڈالا پھر عوامی اور جمہوری حکومتوں نے بھی یہی اندازاپنا کر اکھاڑ پچھاڑ شروع کر دی اس کی بہترین مثالیں نیشنل کونسل آف دی آرٹس ، انجمن ترقی ادب، بزم اقبال اور تاریخی ثقافتی ادارہ لاہور آرٹس کونسل سرفہرست ہیں جہاں ہر طاقت ور حکمران نے من مرضی میں اس قدر ’’بے ادبی‘‘ کے مظاہرے کئے کہ اب ان اداروں کی سربراہی بھی نہ صرف متنازعہ بن چکی بلکہ عدالتی کٹہرے پہنچ گئی ہے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کے آخری دور میں ممتاز ادیب، ناول نگار، کالم نگار، ڈرامہ نویس منصور آفاق کو پہلے انجمن ترقی ادب کی صدر نشینی کے ساتھ بزم اقبال پنجاب کی سربراہی بخشی گئی۔ ان کے پیش روچودھری ریاض کو 93سالہ عمر کے باعث مزید خدمات سے محروم کیا گیا حالانکہ وہ اپنی محدود سرگرمیوں میں خاصے فعال تھے۔ پھر منصور آفاق کی اعلیٰ ترین خدمات اور انجمن ترقی ادب کی نئی خوبصورت عمارت کی تعمیرکے بعد افتتاحی تقریب سے پہلے ہی بزم اقبال پنجاب کیلئے محدود کر دیا گیا اور ان کی جگہ اصغر عبداللہ کو انجمن کی صدر نشینی بخش دی گئی۔ وہ پرانے صحافی اور کالم نویس ہونے کے ناطے قلم اور کاغذسے مضبوط رشتہ رکھنے کے باوجود اپنے قد سے بڑی کرسی پر ادبی حلقوں کو ہضم نہیں ہوئے کیونکہ یہ کوئی معمولی ادارہ نہیں، اس کی صدر نشینی کسی اعزاز سے کم نہیں۔ یہاں احمد ندیم قاسمی، شہزاد احمد شہزاد اور ڈاکٹر تحسین فراقی اور ان سے بھی کئی سینئرز خدمات انجام دے چکے تھے لیکن سابق وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کے دور میں منصور آفاق تعینات کئے گئے تو نہ صرف پبلشنگ اور ادب نوازی کے نئے ریکارڈ بنے بلکہ ایک شایان شان نئی عمارت بھی تخلیق پا گئی اسی طرح بزم اقبال پنجاب کیلئے بھی ریاض چودھری کی محنت رنگ لا چکی تھی۔ دو چھوٹے چھوٹے کمروں پر مشتمل ’’بزم اقبال‘‘ کی نئی عمارت کیلئے فنڈز بھی مل گئے تھے پھر بھی سیاسی مداخلت اور بے ادب فیصلوں سے دونوں بے مراد نہیں۔ ادبی حلقے اور ادب نوازوں کی حوصلہ شکنی ہو گئی ،پھر اسمبلی ٹوٹ گئی۔ نگران حکومت آ دھمکی اور اصغر عبداللہ بھی ڈی نوٹیفیکیشن کے باعث گھر چلے گئے اور اب معاملات عدالتی حکم امتناعی کے ذریعے چل رہے ہیں۔ یہی نہیں لاہور کے سب سے بڑے ادبی ثقافتی مرکز الحمرا کی لاہور آرٹس کونسل کی چیئرمینی رضی احمد کے پاس تھی۔ نگران حکومت کی منہ زوری سے وہ بھی سبکدوش ہو گئے اور وہاں حضرت قاسم علی شاہ کو براجمان کر دیا گیا۔ ادبی ثقافتی حلقے بلکہ پورا لاہور حیران رہ گیا کہ صبرو استقامت، رواداری اور برداشت کے پیغام سے قوم کو مشکلات سے نجات دلانے کے گُر سکھانے والے قاسم علی شاہ کا بھلا آرٹس کونسل میں کیا کام؟ لیکن وہ عمران خان، پرویز الہٰی کے ساتھ ساتھ ایک اعلیٰ افسر خاص کا انٹرویو کرنے کے بعد اپنے عاقلانہ بیانات سے شدید تنقید کا نشانہ بن کر دل برداشتہ ہو گئے تھے۔ دنیا بڑی ظالم ہے۔ اس نے ایک معصوم سی خواہش پر ان کی ایسی درگت بنائی کہ صابر و شاکر کی چیخیں پوری قوم نے سنی،شاید اسی لیے ان کے کرم فرمائوں نے انہیں ریفریشمنٹ کورس کیلئے آرٹس کونسل کا چیئرمین بنادیا۔ پھر انہوں نے اپنی مرضی یا کرم فرمائوں کے اشارے پر بورڈ آف گورنرز ترتیب دیا جس میں اکثریت پر انگلیاں اٹھائی گئیں کہ ان کا فنون لطیفہ ، آرٹ و مصوری، ڈرامہ اور موسیقی سے کیا تعلق۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں چند روز پہلے تک چیئرمین رہنے والے ڈبلیو زیڈ احمد کے صاحبزادے رضی احمد بھی شامل ہیں۔ کیا شان ہے کہ کہاں ادارے کا سربراہ اور کہاں ایک ممبر؟ واہ دلچسپی کی انتہا، کونسے ایسے مفادات تھے جسے وہ فراموش نہیں کر سکے۔ نتیجہ سب کے سامنے ، تمام تعیناتی اور نامزدگی چیلنج ہو گئیں ۔ مسئلہ عدالت کی زینت بن گیا۔
بس یہی کھیل ہمارے ہاں بدقسمتی سے چند نادان دوست اور عاقبت نااندیش کھیل رہے ہیں۔ انصاف پہلے ہی ریاست میں ناپید ہے۔ کوئی کہتا ہے عدالتیں کم ہیں، کسی کا دعویٰ ہے کہ ججز کم ہیں، مقدمات زیادہ۔ ایسے میں یہ شوقیہ فنکاری کے مقدمات بھی عدالتوں کے ذمے لگ جائیں تو پھر یہی کچھ ہو گا، جو ہو رہا ہے۔ نہ حقدار کو حق ملے گا اور نہ ہی انصاف، صرف دھکے پہ دھکا نصیب بنا رہے گا۔ جس کے خلاف فیصلہ ہو جائے وہ مانتا نہیں، ظلم اور ناانصافی کی تکرار کرتا ہے اور جس کے حق میں فیصلہ آ جائے وہ ویسے ہی مغرور ہو کر کسی کی سننے کو تیار نہیں ہوتا۔ پہلے جج، جنرل اور جنرلسٹ کی قدر، قابل احترام ہوا کرتے تھے۔ موجودہ دور ان کی بے توقیری کا ہے جس کے منہ میں جو آتا ہے کہہ دیتا ہے، لہٰذا شاعر، ادیب اور آرٹسٹ کس باغ کی مولی ہیں کہ ان کی قدرکی جائے۔ یہ ترقی پذیر ممالک اور برصغیر کا المیہ ہے۔ ورنہ حقیقت میں یہی وہ چہرے ہیں جن سے قومیں پہچانی جاتی ہیں ا س لیے حکومت کوئی بھی ہو، ذمہ داروں کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ قومی ادبی اداروں کی بے ادبی کیوں ہو رہی ہے اور اس غلطی کا ازالہ کیسے ہو گا؟ یہ رسم چل نکلی ہے اب منصور آفاق اور قاسم علی شاہ جیسے غیر متنازعہ لوگ عدالتوں کے چکر کاٹتے نظر آئیں گے۔ تاہم اب یہ خبر آ چکی ہے کہ نگران حکومت نے حضرت قاسم علی شاہ اور ااُن کے بورڈ آف گورنرز کو بحال رکھا ہے۔بات وہی ہے کہ’’ رُل تک گئے آں پر چس بڑی آئی اے‘‘۔ یقیناً افسوس کا مقام ہے کہ ایسی شخصیت کو متنازعہ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button