Column

کتاب کی صدی

صفدر علی حیدری

جھیلوں، پرندوں اور گلابوں سے عشق کی
دیکھو یہ ساری عمر ہے خوابوں سے عشق کی
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی
جب جب مجھے یہ اشعار یاد آتے ہیں، مجھ میں کوئی پکار پکار کے کہتا ہے، نہیں ایسا نہیں ہے، کتاب کے بنا دنیا کیسی ہو گی ؟ یقیناَ وہ لمحے قیامت ہوں گے۔ اس سے بڑھ کر اور قیامت کیا ہو گی کہ ہمارے درمیان کتاب موجود نہ ہو گی ۔ دنیا کا کون سا ایسا معاشرہ ہے، کون سا ایسا خطہ ہے، کون سی قوم ہے، کون سا مذہب ہے جس نے کتاب یا کتاب کے قبیل کی کسی چیز سے فیض حاصل نہ کیا ہو۔ اس سے استفادہ نہ کیا ہو۔ باقیوں کو رہنے دیں اور صرف مسلمانوں کا سوچیں تو کیا تصور کیا کا سکتا ہے کہ کوئی اسلامی گھرانہ ایسا ہو گا جو کتاب کی اہمیت سے منکر ہو یا اس میں کتاب موجود نہ ہو۔ اور نہیں تو کم از کم قرآن و حدیث کی کتب تو ہر گھر کی زینت ہیں ہی۔ نصابی کتب تو اب بھی ہر معاشرے کا لازمی حصہ ہیں۔ پھر اخبارات، رسائل، میگزین، ڈائجسٹ وغیرہ بھی ہر معاشرے میں موجود ہیں۔ اس سے انکار ممکن نہیں کہ کتب کا مستقبل مخدوش دکھائی دیتا ہے۔ پڑھنے پڑھانے کی حسین روایت آخری سانسیں لے رہی ہے ۔ نئے نسل نے تو پڑھنے سے گویا توبہ کر رکھی ہے۔ سو طلب سے سوال کیا جائے کہ آپ نے آخری کتاب کب پڑھی تو اکثریت ایسی ہو گی جس کا جواب ہو گا ہم نے تو سوائے نصابی کتابوں کے کوئی اور کتاب پڑھی ہی نہیں ۔ معاشرے کا زوال ملاحظہ ہو کہ ہر ہاتھ میں مہنگے فون تو دکھائی دیتے ہیں، کتاب دکھائی نہیں دیتی اور یہی سب سے بڑا المیہ ہے۔ کتب بینی کے شوق کو جتنا نقصان سیل فونز نے پہنچایا ہے کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ کتب بینی کی دم توڑتی روایت کو زندہ کرنے میں ہر پڑھے لکھے شخص کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا کیوں کہ ہم نشینی اگر کتاب سے ہو اس سے بہتر کوئی رفیق نہیں مگر افسوس یہ رفاقت اپنا قصہ پارینہ بنتی جا رہی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ کتابیں اب بھی شائع ہوتی ہیں مگر ان کے چھپنے کا مقصد کسی طور پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ زیادہ تر لکھنے والے اپنی تحاریر محفوظ کرنے کے خیال سے کتابیں شائع کرتے ہیں مگر پڑھنے والے کہاں ہیں ۔ فیس پر پوسٹس لگا کر لوگوں جو ترغیب دی جاتی ہے مگر قاری ان کے ’’ جھانسے ‘‘ میں نہیں آتے۔ جسے دیکھو اعزازی کتاب کا مطالبہ کرتا پایا جاتا ہے۔ عجیب بات ہے کہ دنیا کی واحد چیز کتاب ہی ہے جو بلا معاوضہ طلب کی جاتی ہے اور لکھاری حضرات اکثر مروت میں مار کھاتے رہتے ہیں۔ اپنے پلے سے کتابیں چھپوانے والوں سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ ڈاک خرچ بھی برداشت کریں کتنے بڑے شرم کی بات ہے۔ اکثر لکھاری حضرات ڈاک خرچ کا مطالبہ کرتے ہیں تو کتاب اعزازی طور پر حاصل کرنے والوں کو سانپ سونگھ جاتا ہے ۔ ای بک اور پی ڈی ایف نے بھی کتابوں جی اشاعت کو گہرا دھچکا پہنچایا ہے۔ اخبار و رسائل تک پی ڈی ایف میں دستیاب ہوتے ہیں۔ اب مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے سو یار لوگ اس سے خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ سرکاری سطح پر سرپرستی صفر بھی نہیں ہے۔ وہ وقت بھی رخصت ہوا جب پبلشرز اپنے پلو سے کتابیں شائع کیا کرتے تھے۔ اب تو اشتراک کرنا بھی انہیں گوارا نہیں۔ آنہ لائبریریاں ماضی کا حصہ بن چکیں۔ قومی کتب خانے ویران پڑے ہیں۔ کتابیں ترس رہی ہیں کہ کوئی انھیں محبت سے دیکھے۔ کسی بھی طبقہ فکر کو کوئی فکر نہیں ہے کہ اس صورت حال کو بدلا جائے۔ اس حوالے سے پبلشرز کا کردار سب سے زیادہ گھنائونا ہے۔ بڑے ادارے اپنے نام کی کمائی کھا رہے ہیں۔ اس سب کے باوجود یہ ماننا ہو گا کہ پی ڈی ایف اور ای بکس نے لکھنے والوں کے لیے ایک آسانی بہر حال ضرور پیدا کی ہے کہ وہ چند سو روپوں میں کسی مصنف کو صاحب کتاب بنا دیتی ہیں۔ ہم کتاب کے وارث ہیں، کتاب ہمارا اثاثہ ہے۔ قرآن مجید وہ آخری کتاب ہو گی جو ہارڈ کاپی کی صورت مسلمانوں میں موجود ہو گی۔ مگر جس دن انہوں نے فیصلہ کیا کہ سوفٹ کاپی کافی ہے، قیامت قائم ہو جائے گی۔ حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے کہ قیامت کے قریب علم اٹھا لیا جائی گا ۔ اس سے لگتا یہی ہے کہ کتاب اٹھا لی جائے گی۔ یعنی ہارڈ کاپی کی صورت میں کلام مجید ہمارے درمیان موجود نہ ہو گا ( خدا نہ کرے )، بہر حال جب تک کتاب چھپ رہی ہے ہم ان اشعار سے دل بہلا سکتے ہیں ۔
سمندر جسے کہتا ہوں اسے تم ندی کہتے ہو؟
کتابوں سے محبت کی آخری صدی کہتے ہو؟
ان خزانوں سے تو دنیا نے دنیا بدلی ہے حضور
ناقدر ہو لاعلم ہو گر کتابوں کو ردی کہتے ہو

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button