Column

نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان ہے …. حبیب اللہ قمر

حبیب اللہ قمر

پاکستان دوقومی نظریہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والا ملک ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے یہ الگ خطہ لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے حاصل کیا۔ مسلمانوں کی آمد سے قبل اس خطہ کا نام ہندوستان تھا تاہم جب انہوں نے یہاں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی تو پھر یہ پوری دنیا میں ”بلاد اسلامیہ ہند“ کے نام سے معروف ہوا۔ یعنی اس کی پہچان اور شناخت اسلام کے حوالے سے تھی۔ ہندوستان میں اسلامی ریاست کی بنیاد رکھنے والے محمد بن قاسم،محمود غزنوی، شہاب الدین غوری اور قطب الدین ایبک جیسے عظیم فاتحین اور سپہ سالار ہمارے محسن اور ان کے سنہری کارنامے تاریخ کا روشن باب ہیں۔ بلاشبہ اپنی تاریخ کو یاد رکھنا قابل تحسین عمل ہے۔ جو قومیں اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھتی ہیں۔ماضی کا ہندوستان اور آج کا پاکستان باہم لازم و ملزوم ہیں۔ دونوں کی بنیاد لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ تھی۔یہی وہ عظیم نظریہ تھا جس کی بنیاد پر 23مارچ 1940ءکو برصغیر کے لاکھوں مسلمان لاہور کے منٹوپارک میں اکٹھے ہوئے اور ماضی کی اسی اسلامی نظریاتی ریاست کی بازیابی اور بحالی کا عہد کیا ۔یہ وہ دن تھا کہ جب مسلمانوں نے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں قرارداد پاکستان کے ذریعے انگریزوں اور ہندوﺅں کی غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے ایک الگ خطہ کا مطالبہ کیا۔ اس قرارداد کی منظوری نے مسلمانان ہند کی منزل متعین کی۔ مسلمانان برصغیر جوق در جوق جمع ہونے لگے، مسلم اتحاد کو فروغ ملا اور ایک علیحدہ اسلامی ریاست کامطالبہ زور پکڑتا گیا جس کے نتیجہ میں لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ کی بنیاد پر ایک زبردست تحریک بپا ہوئی اور محض سات برس کے مختصر عرصہ میں مسلمانوںنے الگ ملک پاکستان حاصل کر لیا۔

مسلمانوں کی یہ قرارداد، درحقیقت حکیم الامت علامہ محمد اقبالؒ کا نہایت حسین خواب تھا، جسے انہوںنے 1930ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن الہ آباد کے مقام پر ان الفاظ میں پیش کیا تھا کہ ”میری آرزو ہے کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ملاکر ایک اسلامی ریاست قائم کر دی جائے جس میں اسلام اپنی تعلیم اور ثقافت کو پھر سے زندگی اور حرکت عطا کر سکے گا“۔قائد اعظمؒ، علامہ اقبالؒ اور دیگر قائدین کی کوششوں سے پاکستان تو بن گیا مگر ابتداءسے ہی کانگریس اور ماﺅنٹ بیٹن کے گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کے لیے مشکلات پیدا کرنا شروع کر دیں۔ یہ سب رکاوٹیں پیدا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان چونکہ ایک نئی ریاست ہے اس لیے اسے اتنا کمزور کر دیا جائے کہ وہ اپنی علیحدہ حیثیت قائم نہ رکھ سکے اور خدانخواستہ دوبارہ ہندوستان میں ضم ہو جائے۔ 3جون 1947ءکے منصوبہ کے تحت صوبہ پنجاب اور صوبہ بنگال کے مسلم اکثریتی علاقوں کو پاکستان میں شامل ہونا تھا لیکن انگریز ماہر قانون ریڈکلف نے کانگریس کے دباﺅ پر بددیانتی کرتے ہوئے حیدر آباد، جوناگڑھ اور مناوادرجیسے مسلم اکثریتی علاقوںاور پھر مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر کے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ مہاجرین کی آباد کاری کے مسائل پیداکئے گئے اور اثاثوں کی تقسیم میں بددیانتی کا ارتکاب کیا گیا۔ دریائے راوی کا مادھو پور ہیڈ ورکس اور دریائے ستلج کا فیروز پور ہیڈورکس بھارت کے حوالے کر دیے گئے۔ اگرچہ پاکستان کے احتجاج پر بعدا زاں 1960ءمیں سندھ طاس معاہدہ طے پایا تاہم یہ مسئلہ آج بھی حل طلب ہے اور بھارت مقبوضہ کشمیرمیں پاکستانی دریاﺅں پر غیر قانونی ڈیم بنا کر پاکستان کو صومالیہ بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔
انڈیا نے پاکستان کے وجود کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا ۔اس کی شروع دن سے کوشش رہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کو نظریاتی اور دفاعی اعتبار سے کمزور کیا جائے۔ 1965ءمیں رات کے اندھیرے میں اچانک پاکستان پر جنگ مسلط کی گئی تو 71ءمیں بھی مکتی باہنی کو پروان چڑھایا گیااور پھر پاکستان کو دولخت کرنے کے بعد اندراگاندھی نے فخریہ انداز میں کہا تھاکہ آج ہم نے نظریہ پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔ یہ وہ بھیانک جرم ہے جس کا اعتراف بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بنگلہ دیش میں کیا اوراس پر میڈل وصول کئے ۔ ہندو بنئے کی فطرت میں اسلام اور مسلمان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ بی جے پی، شیوسینا، بجرنگ دل اور آر ایس ایس جیسی تنظیمیں بھارت سرکار کی سرپرستی میں مسلمانوں کا جینا دوبھر کر رہی ہیں۔ اسی طرح عیسائی برادری، سکھ اور نچلی ذات کے دلت ہندو بھی ان کے مظالم سے محفوظ نہیں۔ مکہ مسجد، مالیگاﺅں بم دھماکے، گجرات اور مظفر نگر فسادات ہوں یا سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس، دہشت گردی کے ان سبھی واقعات میںیہی تنظیمیں ملوث ہیں۔اسی طرح بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر، گائے ذبیحہ اور لو جہاد کے الزامات لگا کر مسلمانوں کے قتل عام میں بھی ہندوتوا کی یہی علمبردار تنظیمیں نظر آئیں گی۔ حقیقت ہے کہ بھارت میں برسراقتدار یہ طبقہ پاکستان کو دنیا کے نقشے پر ایک مضبوط قو ت بنتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا ۔ وطن عزیز پاکستان کا کوئی حصہ بھارتی دہشت گردی سے محفوظ نہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی تحریکیں ہوں، جی ایچ کیو، نیول ایئربیس، آرمی پبلک سکول اور دیگر مقامات پر ہونے والے حملے ہوں یا پاکستانی افواج و دیگر اداروں کو نشانہ بنانے کی وارداتیں، ان سب میں بھارت سرکار اور اس کی ایجنسیاں ملوث نظر آئیں گی۔ ملک میں کلبھوشن جیسے نیٹ ورک پروان چڑھانا اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کو میدان جنگ بنانے کی کوششیں بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ بھارتی دہشت گردی کے نتیجہ میں پاکستانیوں نے اپنے پیاروں کی اتنی لاشیں اٹھائی ہیں کہ دل خون کے آنسو روتا ہے۔
بھارت اس وقت بھی چانکیائی سیاست پر عمل پیرا ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر اور پاکستان میں دہشت گردی کی آگ خود بھڑکاتاہے اور بین الاقوامی سطح پر پراپیگنڈہ بھی پاکستان کے خلاف کیا جاتا ہے۔ اسلام و پاکستان دشمنی میں بھارت، امریکہ، اسرائیل اور دیگر قوتیں ایک ہو چکی ہیں۔ایف اے ٹی ایف کے اجلاسوں کے بہانے پاکستان کی محب وطن تنظیموں، اداروں اور شخصیات پر پابندیاں لگانے کے لیے آئے دن دباﺅ بڑھائے جاتے ہیں تاکہ مظلوم کشمیری و فلسطینی مسلمانوں کے حق میں اور پاکستان کے خلاف جاری گھناﺅنی سازشوں کیخلاف کوئی آواز بلند کرنے والا نہ ہو اور وہ اپنے مذموم ایجنڈے آسانی سے پورے کر سکیں۔ دشمن قوتوں کو پاکستان کی ایٹمی قوت اور سی پیک جیسے منصوبے برداشت نہیں ہو رہے۔ پاکستان کی مضبوط میزائل اورجدید ٹیکنالوجی کی حامل پاک فوج بھی دشمن کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہے۔یہ شیطانی قوتیں ہر صورت پاکستان کو اس کی دفاعی صلاحیت سے محروم اور افواج پاکستان کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ ملک میں فتنہ تکفیر اور نظریاتی بنیادوں پر دہشت گرد تنظیموں کو کھڑا کرنا، فرقہ وارانہ قتل و غارت گری پھیلانا اور اندرونی و بیرونی طور پر سازشوں کا شکارکرنے کی طرح پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوششیں انہی مذموم سازشوں کا حصہ ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان کا دفاع مضبوط ہے۔ افواج پاکستان اور دفاعی اداروں کی جرا ¿تمندانہ پالیسیوں اور لازوال قربانیوں سے ملک میں دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے۔ بھارتی و دیگر غیر ملکی ایجنسیوں کے نیٹ ورک بکھر چکے ہیں۔ علیحدگی کی تحریکیں دم توڑ چکی ہیں،پہاڑوں پر چڑھنے والے قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں اور نوجوان نسل میں نظریہ پاکستان دن بدن مزید مضبوط و مستحکم ہو رہا ہے۔
بھارتی و امریکی سرپرستی میں چلنے والے تکفیری گروہ اور تنظیمیں اپنی موت آپ مر چکی ہیں۔سی پیک جیسے منصوبے تیزی سے مکمل ہو رہے ہیں۔ دنیا میں نئے بلاک بن رہے ہیں۔ چین اور روس جیسے ملک پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں تو اسلامی ملکوں کی سربراہی کا اعزاز بھی پاکستان کے حصے میں ہے۔ مستقبل میں پاکستان کو مضبوط معاشی قوت بنتے دیکھ کر عالمی قوتیں بھی پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا چاہتی ہیں۔ اس ساری صورتحال سے پاکستانی قوم کا مورال بلند ہے اور دفاع وطن کے لیے انہیں اپنی بہادر افواج پر مکمل اعتماد ہے۔ یہ بھی اللہ کا شکر ہے کہ پاکستان میں ایسی محب وطن تنظیمیں اور شخصیات موجود ہیں جو پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے تحفظ کا فریضہ سرانجام دے رہی ہیں اور ملک کے کو نے کونے میں نظریہ پاکستان ہی بقائے پاکستان کا نعرہ بلند کر رہی ہیں۔مارچ کے اس مہینہ میں ہمیں ایک بار پھر یہ عزم دہرانے کی ضرورت ہے کہ وطن عزیزپاکستان کے خلاف دشمنان اسلام کی سازشوں کا مقابلہ اسی جوش و جذبہ سے کیا جائے گا جس طرح قیام پاکستان کے موقع پر پوری قوم متحد و بیدار اور ہر قسم کے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھی۔کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آنے والی یہ ریاست ہمیشہ قائم و دائم رہے گی اور عالم اسلام کی دفاعی قوت سمجھے جانے والا پاکستان مستقبل میں ان شاءاللہ اور زیادہ مضبوط و مستحکم ہو گا۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button