CM RizwanColumn

نااہلوں کا ٹورنامنٹ جاری

سی ایم رضوان
دیگر خصلتوں کے ساتھ ساتھ ناہلی بھی بنی نوع انسان کی ایک خاص خصلت اور خصوصیت ہے۔ تاریخ عالم میں جہاں اہل انسان اپنی جگہ قابل ذکر ہوتے ہیں۔ وہاں نااہلوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی کارگزاریوں سے بھی کئی سبق سیکھے جا سکتے ہیں۔ لہٰذا تاریخ میں ان نااہلوں کا ذکر بھی کبھی کم نہیں ہوا۔ پاکستان میں بھی اس انسانی صنف کی کمی نہیں۔ یہاں عالمی سطح کے نااہلوں کے ساتھ ساتھ ملکی سطح کے نااہل بھی بقدر وافر ہمہ وقت موجود رہتے ہیں اور ہر دور میں اور ہر سطح پر ان کی کثیر تعداد ملکی اور بین الاقوامی سطح کی خرابیوں میں حصہ بقدر جثہ ڈالتی رہتی ہے۔ یہاں حکمران طبقہ میں نااہل زیادہ پائے جاتے ہیں لیکن اس حوالے سے ایک وضاحت نہایت ضروری ہے اور وہ یہ کہ یہاں کے حکمران طبقہ میں دو قسم کے نااہل پائے جاتے ہیں۔ ایک حادثاتی نااہل اور دوسرے اصلی اور حقیقی نااہل۔ حادثاتی نااہل وہ ہوتے ہیں جنہیں بعض ناگزیر وجوہات یا مقدمات کی بناء پر عدالتیں نااہل قرار دیتی ہیں جبکہ اصلی اور حقیقی نااہل اکثر ایسی عدالتی و مقدمہ جاتی کارروائیوں سے محفوظ رہ جاتے ہیں لیکن یہ سند نہ ملنی کے باوجود بھی ان کی نااہلی میں کوئی شک و شبہ نہیں ہوتا۔ ویسے تو پاکستان کے قیام کی پہلی دہائی میں ہی یہاں اہلوں اور نااہلوں کی باہمی مقابلہ بازی شروع ہوگئی تھی اور ایک دوسرے کو نااہل قرار دیئے جانے کی کارروائیاں شروع ہو چکی تھیں لیکن 2012ء کے بعد سے اس میں تاریخی سطح کی شدت اور وسعت آ گئی ہے اور ان گیارہ سالوں میں اب تک کے نتائج کے مطابق تیسرا سابق وزیر اعظم عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار پا چکا ہے اور آخری نااہلی 9اگست 2023 ء کو ہوئی ہے۔ آخری قرار دیا گیا نااہل ویسے تو حقیقی نااہل ہے مگر اسے احتیاطاً عدالتی اور محکمہ جاتی نااہلی کا سرٹیفیکیٹ بھی عنقریب ملنے کا قوی امکان ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ سابقہ روایات کے پیش نظر اس آخری نااہل سے یہ اعزاز واپس لے لیا جائے کیونکہ ماضی میں یہاں سرکاری سطح پر حقیقی نااہلوں کو کبھی بھی سرٹیفائیڈ نااہل قرار نہیں دیا گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہمارے ہاں زیادہ نااہل وزرائے اعظم ہی ہوتے ہیں۔ ہمارے وزرائے اعظم کی ایک قدر مشترک اور بھی ہے اور وہ یہ کہ اب تک پاکستان میں 18مرتبہ وزرائے اعظم کو بدعنوانی کے الزامات، براہ راست فوجی بغاوتوں اور حکمران گروپوں میں آپس کی لڑائیوں کی وجہ سے جبری استعفوں، تحریک عدم اعتماد سمیت مختلف طریقوں سے ہٹایا جا چکا ہے اور ہاں ایک سابق وزیر اعظم کو قتل بھی کر دیا گیا تھا اور ایک کو تختہ دار پر بھی لٹکا دیا گیا تھا۔ اب تک کی ملکی تاریخ کے سب سے بڑے، حقیقی، ساڑھے تین سالہ وزارت عظمیٰ میں ملک کی معیشت کو ڈیفالٹ کے خطرہ سے دوچار کر دینے والے اور ڈھیٹ قسم کے نااہل سابق وزیر اعظم عمران خان ہی قرار پائے ہیں جن پر یہ پابندی پانچ اگست 2023 کو بدعنوانی کے ایک مقدمے میں سزا سنائے جانے کے بعد لگائی گئی۔ ملکی قانون کے مطابق اس طرح کی سزا کے بعد الیکشن کمیشن کسی بھی عوامی نمائندے کو عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دے سکتا ہے۔ البتہ بعدازاں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے اس کی سزا کو کالعدم قرار دے دیا گیا ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کی یہ نااہلی برقرار رہتی ہے یا نہیں۔ یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ قیام پاکستان سے آج تک ایک کے سوا سبھی منتخب وزرائے اعظم اپنی پانچ سالہ مدت کبھی بھی پوری نہیں کر سکے۔ ایک نااہل سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 2012 ء میں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات دوبارہ کھولنے کا کہا گیا تھا۔ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا تو توہین عدالت کے الزام میں انہیں وزارت عظمیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور پانچ سال کے لئے نااہل قرار دیا گیا۔ یوں وہ 2013ء کے انتخابات سے محروم رہے لیکن 2018ء میں کامیابی کے ساتھ دوبارہ انتخابی سیاست میں شامل ہو گئے۔ بعد ازاں 2018ء میں سپریم کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم نواز شریف کی انتخابی سیاست پر تاحیات پابندی عائد کر دی گئی۔ وہ اپنے ذرائع آمدن کی وضاحت اور ظاہر نہ کرنے کے مجرم قرار پائے تھے۔ تاہم وہ اپنی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن میں اپنی طاقت کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کے چھوٹے بھائی شہباز شریف اس وقت ڈیڑھ سالہ وزارت عظمیٰ کا مزہ چکھ کر بیرون ملک سیر سپاٹے میں مشغول ہیں۔
سرٹیفائیڈ نااہلی سے ہٹ کر اگر حقیقی نااہلی کے حوالے سے بات کریں تو ماضی قریب میں بات شروع ہوتی ہے 2018ء سے جب سابق آرمی چیف جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ نے ایک نااہل کرکٹر کے ہاتھ میں دنیا کی ایک تسلیم شدہ اسلامی ایٹمی طاقت کی زمام اقتدار تھما دی۔ بعد ازاں یہ جنرل اس کا اعتراف بھی کر چکے ہیں۔ بدقسمتی سے اس کھلاڑی کا کھیل ساڑھے تین سال تک محض سرپرائز دینے تک ہی محدود رہا اور وہ دنیا کو سرپرائز دینے کی بجائے کبھی کسی فوجی افسر کو، کبھی کسی سیشن جج کو، کبھی کسی آئی جی کو اور کبھی کسی سیاسی مخالف کو سرپرائز ہی دیتا رہا اور اس امر سے بے خبر رہا کہ وہ ایک ایسے ملک کا وزیراعظم ہے جو پچھلی سات دہائیوں سے عالمی طاقتوں کا میدان جنگ بنا ہوا ہے اور اس وقت اس جنگ کے من چاہے نتائج خود اس ملک پاکستان کی معیشت کو اپاہج کر کے اور اسی ڈیفالٹ کر کے حاصل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔ ویسے تو اس کھلاڑی نے اپنی انتخابی مہم میں یہ کہنا شروع کر دیا ٹھا کہ وہ خودکشی کر لے گا مگر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گا مگر یہ محض نعرہ ثابت ہوا اور اس نے بعد ازاں اپنے بے نام آقائوں کے اشارے پر یہ خودکشی کر لی اور وقت کی نزاکت نہ سمجھتے ہوئے ملکی معیشت کو ایک بڑے قرضے کے عوض عالمی قصابوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اب یہ آئی ایم ایف پاکستان کے ہر غریب گھر کے کچن میں گھس کر سب کچھ چٹ کر گیا ہے اور مزید کچھ کھانے کو دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔
اس کھلاڑی وزیر اعظم کی باقی سیکڑوں نااہلیاں اس ایک نااہلی کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں کہ اس نے وطن عزیز کو ایک بڑی مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسی طرح اس کے بعد آنے والی پی ڈی ایم حکومت کے وزیر اعظم شہباز شریف کی حقیقی نااہلی بھی اپنے پیش رو سے کم نہیں کہ اس نے قوم سے کئے گئے تمام وعدے یکسر فراموش کر دیئے اور معیشت کو بچانے کی بجائے اسے مزید نو ماہ کے لئے آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور ایسا کوئی پروگرام یا منصوبہ نہیں بنایا کہ اس عالمی عفریت کے خونخوار پنجہ کی گرفت سے ملک کو نکالا جا سکے۔ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے دور میں متعدد کامیابیوں کے باوجود عوام کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں ناکام رہے۔ تاہم ان سولہ مہینوں میں ان کے تعلقات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مثالی رہے اور تاریخ میں انہیں سویلین بالادستی کو کمزور کرنے والے حکمران کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی زیر قیادت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت کے خاتمے پر ایک طرف پاکستان تحریک انصاف یوم تشکر منا رہی تھی تو دوسری طرف وزیراعظم شہباز شریف مختلف تقریبات سے خطاب کرتے ہوئے اپنی کامیابیوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے تھے۔ یاد رہے کہ اتحادی حکومت میں وزارت عظمیٰ، وزارت خزانہ، وزارت توانائی، وزارت منصوبہ بندی، وزارت ریلوے اور اکنامک افئیرز کی وزارت سمیت تمام اہم وزارتیں شہباز شریف نے اپنی پارٹی کے لوگوں کو دے رکھی تھیں۔ اس لئے اب افراط زر اور مہنگائی کو کنٹرول نہ کر سکنے کی ذمہ داری بھی انہی پر عائد ہوتی ہے۔ پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں روز بروز اضافے سے پاکستانی عوام اب خود انقلاب لانے کا سوچ رہے ہیں۔ القصہ شہباز شریف دور میں عوام کے حق میں کوئی ایسا غیر معمولی کام نہیں ہوا جس کا کریڈٹ ان کو دے کر انہیں یاد رکھا جائے۔ یار لوگ جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے، ڈیفالٹ سے بچنے اور ملک کے فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے جیسی وقتی کامیابیوں کے پیچھے بھی درحقیقت فوج کی کاوشیں تھیں، شہباز رجیم کو تو ایف اے ٹی ایف سے نکلنے کے طریقہ کار کے بارے میں بھی علم نہیں تھا۔ تب پاکستان کے ایک قومی بینک کے سربراہ نے فیٹف کے دو سابق ماہرین کی ملاقات آرمی چیف سے کروائی تھی۔ اس پر ایک خصوصی سیل بنا اور بات آگے بڑھی تھی۔ اگر عوامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو نظر آتا ہے کہ شہباز شریف عام آدمی کو کوئی بڑا ریلیف دینے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ان کے دور میں مہنگائی اور ٹیکسوں کی شرح اور یوٹیلٹیز کے نرخوں میں اضافہ ہوا اور شدید معاشی مشکلات سے دوچار لوگ عمران خان کے دور کی مہنگائی کو بھی بھول گئے۔ اب یہ نگران دوست آئے ہیں اور نادان دوست ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ بجلی کے بلوں پر تین دن کی میٹینگز پر وقت اور چائے پانی خرچ کرنے بعد قوم کو لال جھنڈی دکھا دی ہے کہ انہیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ ملکی معیشت کا اس قدر بیڑا غرق ہو چکا ہے۔ جس طرح عمران خان نے کہا تھا کہ اسے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حکومت کرنا اس قدر ٹف جاب ہے۔ اور جس طرح شہباز شریف نے کہا تھا کہ انہیں اپنی سیاست قربان کر کے معیشت بچانا پڑی جو کہ حقیقت میں بچی نہیں ڈوب گئی ہے۔ لگتا ہے 2018ء سے ان نااہلوں کے درمیان ایک ٹورنامنٹ جاری ہے جس کی فائنل بیٹنگ نئے اور سفارشی کھلاڑی انوار الحق کاکڑ کر رہے ہیں لگتا ہے کہ یہ نئے اور تازہ دم کھلاڑی جلد ہی اپنی نااہلی ثابت کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن ان سے نہ ہم گلہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں شاباش دے سکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button