Ahmad NaveedColumn

غلامی سے حکمرانی تک .. احمد نوید

احمد نوید

دسویں صدی میں، بحیرہ کیسپین کے قریب دریائے وولگا کے نیچے غلاموں کی تجارت عروج پر تھی۔ مال غنیمت اور غلاموں کی تلاش میں بے لگام درندگی کے ساتھ یورپ پر چڑھائی کی جاتی تھی۔ مشرقی یورپ ان چھاپوں کا ایک خاص ہدف تھا۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کو شمالی اور مشرقی یورپ میں پکڑا جاتا تھا اور دریائے وولگا کے نیچے لا کر مسلمان اور یہودی تاجروں کو بیچ دیا جاتا تھا۔ اس لئے مسلمانوں کے درباروں میں یورپی غلاموں کی بہت مانگ تھی، کیونکہ یہ مرد بہترین سپاہی بنتے تھے اور عورتیں اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھیں۔ غلام نوجوان مردوں کو خصوصی کیمپوں میں بطور سپاہی تربیت دی جاتی تھی ، اسلام کے احکام سکھائے جاتے تھے اور فوج میں شامل کیا جاتا تھا۔ قرطبہ کے ہسپانوی درباروں اور قاہرہ کے درباروں نے یورپی غلاموںکو بطور سپاہی ملازم رکھا ہوا تھا۔ ترک غلاموں کی بھی یہی کہانی تھی، جو ہندوستان تک پہنچے اور بادشاہ بن گئے۔ ان غلاموں کی صفوں سے ہی ہندوستان اور مصر کی 13ویں صدی کی سلطنتیں وجود میں آئیں۔ رضیہ التمش کی بیٹی تھی، جو دہلی کے ترک سلطان قطب الدین ایبک کا غلام تھا۔ التمش نے ایک سپاہی کے طور پر غیر معمولی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا اور تیزی سے ترقی کر کے فوج میں جنرل آفیسر بن گیا۔ قطب الدین نے اپنی بیٹی کو التمش سے بیاہ دیا۔ اپنے سسر کی وفات کے بعد التمش دہلی کے تخت پر بیٹھا ۔ اس نے اپنے آپ کو نہ صرف ایک بہترین سپاہی بلکہ ایک باکمال سیاستدان بھی ثابت کیا۔ جب چنگیز خان وسطی ایشیا (1219) پر اترا تو التمش نے اسے بہترین فوجی پوزیشن کے ذریعے ہندوستان سے دور رکھا ۔یوں دہلی اور لاہور منگولوں کی تباہ کاریوں سے بچ گئے۔ التمش کے تین بیٹے اور ایک بیٹی رضیہ تھی۔ بیٹے نااہل ثابت ہوئے اور ریاست کے معاملات سے زیادہ شراب اور گانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس لیے التمش نے اپنی بیٹی کو اپنا جانشین نامزد کیا۔ رضیہ اپنے والد کی خواہش کے مطابق 1236میں ہندوستان کے تخت پر براجمان ہوئیں۔ رضیہ کو فوری طور پر اپنے بھائی رکن الدین کی طرف سے ایک چیلنج کا سامنا کرنا پڑا، جس نے رضیہ کو ڈرانے دھمکانے اور اسے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کے لیے اپنے ہی بھائی کو قتل کر دیا تھا۔ رضیہ ایک قابل سیاست دان تھی۔ عوام میں گئی اور دہلی کی جامع مسجد میںعام لوگوں سے انصاف کی اپیل کی۔ عام لوگوں نے اس سے اپنی محبت کا مظاہرہ کیا۔ رکن الدین کو اپنے ہی بھائی کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ شرعی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ رضیہ نے ہندوستان پر اپنا اختیار قائم کرنے میں کوئی وقت ضائع نہیں کیا۔ اس نے اپنے نام کے سکوں کا آرڈر دیا۔ رضیہ سلطانہ کے بارے میں بہت ساری معلومات ابن بطوطہ کی تحریروں سے ملتی ہیں، جو دنیا کے عظیم سیاحوں میں سے ایک ہیں۔ ابن بطوطہ رضیہ کے سو سال بعد ہندوستان (1335-1340) میں آیا اور مقیم رہا۔ اس کے مطابق، رضیہ نے ایک سپاہی کی طرح ملبوس جنگ میں گھوڑے پر سواری کی، انصاف کا انتظام کیا، نئے علاقے فتح کیے اور ریاست کے امور کی صدارت کی۔ لیکن مردوں کے حسد کی کوئی حد نہیں ہوتی ۔ ترک جرنیلوں اور رئیسوں کو عورت کا تخت پر بیٹھنا برداشت نہ تھا۔ رضیہ جوان، اور خوبصورت تھی۔ بہت سے امراء نے اسے شادی کی پیشکش کی۔ مگروہ دربار کے ایک افریقی غلام، جمال الدین یاقوت سے محبت کر بیٹھی، جو شاہی اصطبل کا رکھوالا تھا۔ مایوس ترک جرنیلوں اور رئیسوں کی حسد کی آگ بھڑک اٹھی۔ اس کا مقدمہ دہلی کے نام نہاد علما کے سامنے رکھا گیا۔ الزام لگایا گیاکہ رضیہ نے وہ حد پا ر کی ہے،جسکی اسلام اجازت نہیںدیتا۔ علما نے فیصلہ دیا کہ رضیہ نے شریعت کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لیے وہ عہدہ چھوڑ دے، شادی کر لے اور پردے کے پیچھے چلی جائے۔نام نہاد علما نے ایک ترک جنرل التونیہ کوجانشین نامزد کی۔ بہادر رضیہ جنرل سے جنگ میں شکست کھا گئی اور قیدی بنا لی گئی۔فاتح التونیہ کو اپنے قیدی سے پیار ہو گیا اور اس نے رضیہ سے شادی کر لی۔ دونوں سے د لی کاتخت چھن چکا تھا۔ دونوں ایک ساتھ دہلی کی طرف بڑھے، بدقسمتی سے رضیہ اور التونیہ کی مشترکہ افواج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ رضیہ میدان جنگ سے بھاگ گئی۔ تھک ہار کر اس نے ایک کسان کی جھونپڑی میں پناہ لی۔ جب وہ سو رہی تھی، کسان نے دیکھا کہ اس کا مہمان، جو مرد کی طرح ملبوس تھا، سونے کی کڑھائی والا لباس پہنا ہوا تھا۔ اس نے اسے نیند میں مار ڈالا لیکن شہر کے لوگوں نے اسے سونے کے زیورات بیچنے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑ لیا۔ دہلی کے پرانے شہر میں ایک غیر معروف اور عام سی جگہ پر اس باہمت خاتون کو دفن کر دیا گیا تھا۔ اس کے مقبرے کی گلیاں خستہ حال عمارتوں او کھلے گٹروں سے گزرتی ہیں۔ یہ ایشیا کی پہلی خاتون حکمران کی آخری آرام گاہ ہے۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ عام لوگ اپنی ملکہ کی تعظیم کرتے تھے۔ وہ ایک غلام کی بیٹی بننے سے دنیا کی سب سے طاقتور سلطنتوں میں سے ایک کی پہلی مسلم ملکہ بنی۔ رضیہ نے عربی، فارسی اور ترکی زبانوں میں علوم تو سیکھے ہی مگر لڑائی میں بھی مہارت حاصل کی۔ جب امرا نے اس فیصلے پر سوال اٹھایا کہ التمش کے وارث اُن کے بیٹے ہیں، تو اِلتمِش نے انھیں جواب دیا کہ رضیہ اُن کے بیٹوں سے زیادہ قابل ہیں۔ پروفیسر کے اے نظامی کا کہنا ہے کہ رضیہ کا تختِ دِلی پر بیٹھنا بہت ہی نمایاں خصوصیات کا حامل تھا۔ لوگوں نے دِلی سلطنت کی تاریخ میں پہلی بار اپنے لئے جانشینی کے معاملے کا فیصلہ کیا۔ دِلی کی آبادی کی حمایت رضیہ کی طاقت کا بنیادی ذریعہ تھی۔عِصامی کے مطابق رضیہ نے لوگوں سے کہا کہ اگر وہ اُن کی توقعات پر پورا نہ اُتریں تو انھیں معزول کر دیں۔کئی امرا اور فوج نے رضیہ کی اطاعت قبول کی اور انھیں تخت پر بٹھایا اور یوں وہ جنوبی ایشیا کی پہلی خاتون مسلمان حکمران ا ور سلطان بنیں۔ کہتے ہیں اپنے مخالفین کا زور توڑنے کے لیے رضیہ نے غیر ترکوں کو آگے لانا شروع کر دیاتھا۔ رضیہ نے حبشی غلام جمال الدین یاقوت کا امیر کے طور پر تقرر کیا۔ ترک حلقے جو ویسے ہی عورت راج پر جلے بھنے بیٹھے تھے۔ ایک سیاہ فام غلام کو بڑے عہدے پر دیکھ کر سخت ناراض ہونے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ رضیہ کو محبت کی کہانیوں سے نفرت تھی اور انہوں نے حکم دے رکھا تھا کہ اُن کے سامنے کبھی محبت کی کہانی نہ سُنائی جائے، ان کا کہنا تھا کہ وہ بزدل اور نکما نہیں بننا چاہتیں۔ وہ ایسا لباس پہنتی تھیں جس میں ان کا پورا جسم چھپا رہے سوائے چہرے کے۔ رضیہ چوغے اور پگڑی میں تخت پر بیٹھ کر سرکاری معاملات چلاتیں۔ اپنی سیاسی سوجھ بوجھ اور پالیسیوں کے سبب فوج اور عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی تھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button