ColumnImtiaz Ahmad Shad

سکون قلب ! ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد

’’خبردار!(سن لو) انسان کے جسم میں ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست ہے تو سارا جسم ٹھیک ہے، اگر وہ خراب ہے تو پورا بدن ناکارہ ہے۔ خبردار، سن لو! وہ دل ہے۔‘‘ انسان کے جسم میں دل کا کردار بہت عظیم ہے۔قلب، انسانی بدن میں تمام اعضا کا سردار ہے، جسم کے تمام اعضا کا دارومدار اسی پر ہے، اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے امت کو دل کے بارے میں ہدایات دیں۔ یہ دل کیا ہے؟ یہ پٹھوں کے مجموعے پر مشتمل ایسا عضو ہے جو انسانی بدن کو مسلسل خون پہنچاتاہے۔ یہ انسانی تن میں موجود خون کے نظامِ گردش کے درمیان واقع ہے۔ یہ پورانظام، خون کی رگوں کے جال پر مشتمل ہے۔ خون، دل سے پورے انسانی بدن کے مختلف حصوں سے ہوتا ہوا پھر واپس دل کی طرف لوٹتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے دل کا نظام ایسا رکھا ہے کہ انسان کی عقل حیران رہ جاتی ہے۔ تحقیق کے مطابق دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ سکڑتا اور پھیلتا ہے۔ہر منٹ میں قریباً پانچ یا چھ ہزار کوارٹرگیلن خون انسانی بدن کے مختلف اعضا تک پہنچاتا ہے۔ انسان کے جسم میں یہ واحد عضو ہے جس کی حرکت پر انسانی زندگی کی بقا ہے۔ افسوس آج کا مسلمان بیہودگی ،مال و دولت کے انبار اور شہرت میں اپنا سکون تلاش کرتا ہے، اسی کو اپنا مقصد ِحیات بنایا ہوا ہے، حالانکہ اس میں سکون رکھاہی نہیں۔ سکون اور اطمینان قلب وہاں ڈھونڈنا چاہیے جہاں اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں ’’خبردار! (سن لو) اللہ کے ذکر ہی سے دل سکون و اطمینان پاتے ہیں‘‘۔ آپ دنیا کا جائزہ لیجیے! خدا کی ذات کو یاد کرنے والے کتنے لوگ چین و آرام کی زندگی پاتے ہیں، ان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے ذکر اور عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ سکون و اطمینان اللہ کے گھر اور وہاں ہوتاہے جہاں اللہ اور رسول ﷺ کی بات کی جاتی ہے۔ اولیاء اللہ کی صحبت میں جاکر اپنی اصلاح کروائیے! تاکہ دل ان مہلک امراض سے خالی ہوجائے۔ یہی ان مہلک امراض باطنی کے ماہر ہیں جو خانقاہوں میں بیٹھے اللہ کے ذکر سے لوگوں کے دلوں کو روشن کرتے ہیں۔موجودہ وقت میں جو حالات چل رہے ہیں ہر شخص پریشان ہے بے چینی بے سکونی اور اضطراب کا شکار ہے کوئی مالی پریشانی کا شکار ہے توکوئی جسمانی بیماریوں کا، کوئی گھریلو و نجی تنازعات کا شکار ہےکوئی بیروزگاری کاشکارہے توکوئی اپنے کاروبارمال وتجارت کے باعث پریشان ہے ہربندہ کسی نہ کسی چھوٹے بڑے دکھ یا غم میں مبتلا ہے اس وقت تو پاکستان کا ساٹھ فیصد حصہ سیلاب سے تباہ ہو چکا،لہٰذا وطن عزیز کی اکثریت آبادی بے حد پریشان ہے۔ ہرشخص سکون قلب چاہتا ہے۔ انسان جب اپنا دکھڑا کسی سے بیان کرتا ہے تو سامنے والا اپنا دکھڑا سناتا ہے، سامنے والے کا درد اس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے کہ بندہ اپنا دکھ بھول جاتا ہے۔کیا ہم نے ٹھنڈے دل ودماغ سے کبھی سوچا ہے کہ یہ دل کی ویرانی،بے چینی، اضطراب،یہ پریشانیاں، یہ غم،یہ بے قراری، لوگوں کی زندگی میں اطمینان کا فقدان کیوں ہے ؟حالانکہ آج کے انسان کو راحت اور آسائش کے وہ وسائل اور سامان حاصل ہیں جن کا اسکے آباؤاجداد نے کبھی تصور بھی نہ کیا ہوگا ۔ذہنی اور قلبی سکون کیسے ملے گا اس کا طریقہ کیا ہے یہ کس قیمت پر ملے گا؟اللہ تعالی قرآن مجید کی سورۃ الرعد کی ایک آیت میں فرماتے ہیں۔جان لو کہ اللہ کی یاد کیساتھ دلوں کا سکون اور اطمینان وابستہ ہے اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو راحت چین سکون ملے گا جس بندے کا اللہ تعالی سے تعلق قائم ہو تو پریشانی اس کے نزدیک بھی نہیں آتی۔ جس کا دل ہروقت اللہ کے ذکر سے آباد ہوگا ، پریشانی اسکے ذہین میں نہیں آتی۔ اس دنیا میں آنا ہماری مرضی سے نہیں اس دنیا سے جانا ہماری مرضی سے نہیں حالات و واقعات ہم پر اس طرح اچانک حملہ کرتے ہیں کہ نہ اس کے حملوں سے کوئی غریب بچتاہے نہ کوئی ارب پتی۔ مال سے کوئی خوشیاں خرید سکتاتو حکمرانوں مالداروں کے گھر پریشانیوں کی آماجگاہ نہ بنتے۔
اس وقت جو علاقے سیلاب کی زد میں ہیں ،ان کا جائزہ لیں آپ پر واضح ہو جائے گا کہ کل تک جو باعزت زندگی بسر کر رہے تھے آج وہ راشن کیلئے بے یارومدد گار پڑے ہیں۔ذہن نشین کر لیں یہ کوئی اور طاقت ہے جس کی قدرت بڑی کامل ہے ۔ وہ جس پرجو حال چاہتا ہے لے آتاہے جس طرح چاہتا ہے اس کے دن پھیر دیتا ہے۔ قرآن پاک کی سورۃ النساء کی ایک آیتِ میں رب کائنات فرماتے ہیں۔ـیہ دن ہمارے ہاتھ میں ہیں، ہم جیسے چاہیں پھیر کے رکھ دیں۔مال سے کوئی خوشیاں خرید نہیں سکتا کوئی مصیبت اللہ کے حکم کے سوا نہیں آتی۔ سورۃ النجم میں اللہ تعالی فرماتے ہیں’’ اور یہ کہ وہی (اللہ)ہنساتا اور رُلاتا ہے‘‘ اسی سورۃ کی ایک اور آیت کی ترجمہ ہے کہ وہی مارتا ہے اور وہی جگاتا ہے جبکہ قرآن مجید کی سورۃ یونس میںاللہ تعالی اپنے بندوں سے فرماتے ہیں۔اور اگر کوئی تکلیف میں مبتلاء ہو تو اللہ کے سوا کون ہے جو اس کی تکلیف کو ہٹاسکے؟دنیا کا ہر شخص اپنے قلب کی تسکین کیلئے ہر انداز اپناتا ہے مگرایک مسلمان کیلئے سب سے بڑی تسکین وراحت اللہ تعالی پر ایمان ہے۔ یہی ایمان ہے جو بندے کو بہار و خزاں و ہرقسم کے حالات میں مطمئن رکھتا ہے۔
ایک مسلمان کو ایمان کی برکت سے زندگی میں قدم قدم پر جو سکون وراحت نصیب ہوتا ہے اس کا اندازہ ہرکوئی نہیں کرسکتا ایمان کامل کی چار علامتیں ہے ۔جب کسی کو کچھ دے تو اللہ کیلئے،اگر کسی چیز سے خود کو روکے تو اللہ کیلئے۔ اگر کسی سے محبت کرے تو اللہ کیلئے۔مخالفت اورغصہ بھی کرے تو اللہ کیلئے ۔عقبہ بن عامرؓسے مروی ہے کہ میں نے حضور ﷺ سے عرض کیا کہ نجات کا راستہ کیا ہے؟اس سوال کے جواب میں حضور ﷺ نے تین نصیحتیں فرمائیں۔ ایک اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔دوسری بلا ضرورت گھر سے مت نکلو۔تیسری اپنی خطاؤں پر روتے رہو۔ اللہ تعالی کو اپنا دین محبوب ہے،اللہ کی یاد سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے صدق اللہ کو محبوب ہے صداقت دلوں کو دھو دیتی ہے۔ اللہ کے ذکر سے بڑھ کر کوئی چیز دلوں کو کھولنے والی نہیں۔اس مشکل وقت میں سیلاب زدہ علاقوں میں بسنے والے انتہائی تکلیف میں ہیں تو اللہ کے ان بندوں کی مدد کر کے قلبی سکون حاصل کیا جا سکتا ہے۔اللہ کو وہ لوگ بے حد پسند ہیں جو اللہ کے بندوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔اس وقت ان لوگوں کے پاس موقع ہے جو دولت ،شہرت اور تمام اسائشوں کے باوجود دکھوں اور غموں میں گھرے رہتے ہیں، آگے آئیں اور اپنے بھائیوں کی ہر ممکن مدد کریں، یقینا قلبی سکون میسر ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button