Column

جہالت کا بھی کوئی حل ڈھونڈئیے

یاور عباس
زوال پذیر خاندان ہوں یا قومیں ان کے زوال کے یوں تو بہت سے اسباب ہوتے ہیں مگر ان میں ایک مسئلہ جہالت بھی ہوتا ہے۔ ریاست مدینہ کی تشکیل سے پہلے اگر ہم عرب معاشرے پر نگاہ دوڑائیں تو پتہ چلتا ہے کہ جہالت عام تھی ، لوگوں میں شعور کی کمی تھی جس کے باعث معمولی سے معمولی بات پر بھی خاندانوں کے درمیان دہائیوں تک دشمنیاں چلتی تھیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا تھا ، کتنے لوگ قتل ہوجاتے تھے مگر چھوٹے سے مسئلہ کو افہام تو تفہیم سے سلجھانے کا ہنر ان کے پاس نہیں تھا ، عرب معاشرہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس کا کوئی دستور نہیں تھا ، لاقانونیت کی انتہا تھی بلکہ یہ کہا جائے تو بے نہ ہوگا کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ تھا طاقتور کمزور کو جس طرح مرضی کچل دیتا کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔ ایسے معاشرے کو ترقی یافتہ معاشرے بنانے کے لیے ہمارے نبی آخرالزمان حضرت محمدؐ نے جو سب سے بڑا قدم اُٹھایا وہ جہالت کا خاتمہ کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوںنے تعلیم کو عام کیا ، لوگوں کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے آپ نے جنگی قیدیوں کو بھی حکم دیا کہ لوگوں کو تعلیم دو تمہاری قید ختم کردی جائے گی ۔ علم حاصل کرنے پر اتنا زور دیا گیا کہ مسلمانوں کو کہا گیا کہ ماں کی گود سے لے کر گور تک علم حاصل کرو اور علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے ، آپؐ زندگی کے ہر شعبے میں درجہ کمال پر فائز تھے مگر آپ نے فخر کیا کہ مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے ۔ پھر زمانہ دیکھتا رہ گیا کہ ایک جاہل معاشرہ نے کس طرح ترقی کی اور دنیا پر حکمرانی کی ۔
جب مسلمان ترقی کر رہے تھے تو اہل مغرب جہالت کے اندھیرے میں ڈوبے ہوئے تھے پھر جب اہل مغرب نے ترقی کرنے اور دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھا تو انہوںنے اپنی جہالت کو مٹانے کا عزم کیا ۔ تعلیم کے میدان میں ترقی کی جس کے بعد ہم دیکھ رہے ہیں کہ اہل مغرب زندگی کے ہر شعبے میں دنیا سے آگے ہیں ہمارے استاد مکرمی چودھری نصر اللہ خاں نصر ایڈووکیٹ مرحوم فرماتے تھے کہ جو علم کا امام ہے وہ دنیا کا امام ہے ۔ یقینا جو کوئی بھی خواہش رکھتا ہے کہ وہ دنیا پر حکمرانی کرے تو اس کو حصول علم کے لیے تن من دھن خرچ کرنا پڑے گا ۔ اسلامی دنیا کو اس وقت أ تعالیٰ نے بے پناہ قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے مگر کاہلی کی وجہ سے تیل نکالنے سے لے کر سمندروں کی گہرائیوں تک کام کرنی کے ٹھیکے اہل مغرب کے پاس ہیں جس کی بدولت اہل مغرب مسلمانوں پر حکمرانی کر رہے ہیں اور مسلمانوں پر اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے کبھی گستاخانہ خاکے بناتے ہیں تو کبھی آزادی اظہار رائے کی آڑ میں اسلامی شعائر کی توہین کرتے ہیں پھر مسلمان سیخ پا ہوجاتے ہیں اور اپنی ہی ملکوں میں تباہی پھیرنے کے بعد کیا نتیجہ نکلتا ہے ۔ معاملات آہستہ آہستہ ٹھنڈے ہوجاتے ہیں، حکومتوں کے کاروبار چلتے رہتے ہیں ، اسلامی ریاستوں کی مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں اس لیے کوئی سخت فیصلے نہیں لیے جاتے ۔ اتحاد اور اتفاق کی کمی اپنی جگہ مگر بہت ساری ملکوں کے معاشی مسائل ہیں اور کچھ کے دفاعی معاہدے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلامی ممالک کی تنظیم بھی صرف اجلاسوں کی حد تک مذمت ہی کر سکتی ہے کسی مغربی ملک کو گھٹنے کے بل آنے پر مجبور نہیں کر سکتی ۔ کشمیر، فلسطین سمیت جن اسلامی ریاستوں میں اغیار ظلم و ستم کی داستانیں رقم کر رہے ہیں اسلامی ریاستیں ان کا دفاع کرنے اور انہیں آزادی دلوانے میں مکمل طور پر ناکام ہیں ۔
تحریک پاکستان کے رہنمائوں نے قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں جس پاکستان کا خوب دیکھا تھا وہ ایک روشن پاکستان تھا جہاں امن ، سکون ، مذہبی آزادی ، معاشی خوشحالی ، معاشرتی اقدار ، ہم آہنگی ، اخوت ، مساوات اور رواداری تھا وہ ملک جس نے امت مسلمہ کی قیادت کرنی تھی ، بلکہ علامہ اقبال نے تو چین و عرب سے لے کر سارا جہاں ہمارا ہے نعرہ لگایا تھا لیکن آزادی کے بعد ہمارا معاشرہ آج تک ان اصولی فیصلوں کو تلاش کر رہا ہے، آج اگر ہم معاشی گرداب میں پھنسے ہوئے ہیں تو اس کی کوئی بڑی وجہ تو ہوگی یقینا ریاستی اداروں کو وہ نکات تلاش کرکے قوم کے سامنے لانے چاہیے کہ ہم نے دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھا تھا مگر ہم نے تو اپنا ملک بھی دولخت کرلیا، آئی ایم ایف کے چنگل میں ایسے پھنسے کی ہماری حالت اب غلاموں سے بھی بدتر ہوتی جارہی ہے ۔ ہمارا ملک معاشی، آئینی ، معاشرتی ، اخلاقی لحاظ سے زوال کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے اسے ہینڈ بریک لگانے کی ضرورت ہے ۔ کرپشن ، اقرباء پروری ، سرمایہ دارانہ ، جاگیردارانہ ، اشرافیہ ، طاقتور ملکوں کی غلامی جیسی ان گنت معاملات اصلاحات طلب ہیں مگر اس دلدل سے نکلنے کے لیے ہمیں ایماندار قیادت چاہیے جو صاف اور شفاف الیکشن کے ذریعے ہی ممکن ہے ، ادارے اپنا کام ایمانداری سے کریں اور اپنی آئینی حد میں رہیں اپنے اداروں کا نظام آئین کے مطابق مثالی بنائیں تو یقین جانیں ہمیں مسائل سے نکلتے زیادہ دیر نہیں لگے گی ، جو بھی منتخب حکومت آئے وہ تعلیم پر سب سے زیادہ خرچ کرے آج ہم جس صورتحال سے دوچار ہیں اس کی وجہ تعلیم کے لیے بجٹ کا 2فی صد یا پھر اس سے بھی کم حصہ رکھنا ہے ۔ اگر معاشرہ تعلیم یافتہ ہوگا ، تعلیمی اداروں میں تربیت کا بندوبست کیا جائے گا، اخلاقیات کے میدان میں ہم ترقی کریںگے تو یقین جانیں ہمیں اپنے پائوں پر کھڑے ہونے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا پھر لوگ چالیس سالوں سے لوٹنے والوں کے لیے بھی سڑکوں پر نکل کر زندہ باد کے نعرے نہیں لگائیں گے ۔ یہ جہالت ہی ہے کہ جن کو ہم ووٹ دینے کے بعد پانچ سال تک کوستے رہتے ہیں وقت آنے پر انہیں کی دست بوسی کو سعادت سمجھتے ہیں۔ ملکی مسائل کے حل کے لیے شعور بانٹنے کی ضرورت ہے تاکہ جہالت کا خاتمہ ہوسکے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button