Column

جوتے مارنے والے بڑھائے جائیں

سیدہ عنبرین
سائنسی لیبارٹریوں نے بنی نوع انسان کے کام آنے والی چیزوں کی تیاری کے سلسلے میں تمام تجربات پہلے جانوروں پر کئے ہیں، ان میں چوہے، خرگوش اور بندر سائنسدانوں کی ترجیح ہوتے ہیں۔ جانوروں کی کلوننگ کے بعد انسانوں کی کلوننگ کے کامیاب تجربات ہو چکے ہیں۔ اس میں اب جینٹک انجینئرنگ کی منزل کا حصول ہو چکا ہے۔ آپ اپنی پسند کی شخصیت کی تصویر کے مطابق اپنے ہونے والے بچے کے خدوخال تبدیل کرا سکتے ہیں، حتیٰ کہ اس کی عادت و اطوار بدلنا بھی اب سائنس اور سائنسدانوں کی مٹھی میں ہی۔ انہی لیبارٹریوں میں اب انسان کو نقصان پہچانے انہیں نت نئی بیماریوں میں مبتلا کر نے کے پراجیکٹ پر بھی کام ہو رہا ہے، ایک تحقیق کے بعد یہ دل خراش حقیقت سامنے آئی ہے کہ دنیا کی بعض بڑی بڑی ادویہ ساز کمپنیوں کی مرض سے نجات کی دوا تیار کرنے کے ساتھ اس میں ایسے اجزا شامل کر دیتی ہیں جن سے انسان کو ایک بیماری سے تو قدرے نجات مل جاتی ہے لیکن انسان کے جسم میں ایک نئی بیماری کا پودا اگنا شروع ہو جاتا ہے۔ ادویہ ساز کمپنیاں اور ڈاکٹر ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں کے مفادات ایک دوسرے سے جڑے ہیں لہذا دونوں فریق ایک دوسرے کو جانے بغیر، ملاقات کئے بغیر، معاملات طے کئے بغیر، ایک دوسرے کیلئے کام کرتے ہیں۔ دونوں کے درمیان سیلز ریپ یا مارکیٹنگ کا شعبہ اپنا کردار ادا کرتا ہے، وہ ڈاکٹروں سے رابطے میں وہ کر انہیں اپنی کمپنی کی دوا اپنے مریضوں کو دینے کیلئے مائل کرتے ہیں اور ان کی کمپنیاں حق خدمت ادا کرتی ہیں۔ اگر کوئی دوا مریض کو ہمیشہ کیلئے صحت مند کر دے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ڈاکٹر اور ادویہ ساز کمپنی کا ایک کسٹمر گم ہو گیا، آج ہر شخص کوئی نہ کوئی دوا کسی نہ کسی بیماری سے صحت یاب ہونے کیلئے استعمال کر رہا ہے، جبکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مریضوں میں اضافہ ہو رہاہے جبکہ مریضوں کو ایک مرض کے علاج کے ساتھ نئے لاحق ہونے والے مرض کے حوالے سے پریشانیوں کا سامنا ہے بعض ڈاکٹر اور ادویہ ساز کمپنیاں اپنے گھنائونے کاروباری منصوبوں پر پردہ ڈالنے کیلئے ایک ٹرم ایجاد کر چکی ہیں، اب ہر مرض کے لاحق ہونے پر نہایت سادگی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ کسی دوا کا سائیڈ ایفیکٹ ہے۔ سائنس ایک طرف تو کامیابی کی منزلیں طے کر رہی ہے، وہ ہم شکل جانوروں کے بعد ہم شکل انسان پیدا کرنے میں کامیاب ہو چکی ہے، جبکہ دوسری طرف وہ کہتے ہیں کہ دوائوں کے سائیڈ ایفیکٹس موجود ہیں اور ابھی تک ان پر قابو نہیں پا یا جاسکا، یہ سب تسلیم کرنا آسان نہیں، کاروباری صنعت کیلئے ایک کامیاب تجربے کے بعد اب ممکن ہو گیا ہے کہ جنیاتی ایڈیٹنگ کے بعد اب صرف مادہ چوزے پیدا کئے جاسکیں، کاروباری کمپنیوں کا کہنا ہے کہ نر چوزے خوراک زیادہ کھاتے ہیں، ا نکا گوشت کھانے میں استعمال ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں مادہ چوزے کم خوراک کھاتے ہیں، پھر اس سے انڈے حاصل کئے جاتے ہیں، جس کے بعد اس کا گوشت بھی استعمال ہو جاتا ہے، یوں مادہ چوزہ، نر چوزے کی نسبتاً زیادہ منافع دیتا ہے۔ پس اب پہلے قدم کے طور پر ایسی مرغیاں تیار کی جائینگی جن کے دئیے گئے انڈوں سے صرف مادہ چوزے یعنی چوچیاں جنم لیں گی، ان مرغیوں اور ان کے انڈوں میں سے ایڈیٹنگ کا کوئی سراغ ڈھونڈنے کے باوجود نہیں ملے گا۔ یہ ذائقے میں بھی دوسرے انڈوں جیسے ہونگے، ایک اور تجربے کے مطابق ایسے انڈے بھی کمرشل بنیادوں پر تیار ہو رہے ہیں، جو مرغی کے محتاج بھی نہیں، یہ مشینی انڈے دیکھنے میں عام مرغیوں کے انڈوں جسے ہیں، ان کا ذائقہ بھی مختلف نہیں، ان کی پہچان صرف ایک ہے، مرغی کے انڈے کی ایک طرف چونچ بڑی ہے جبکہ مشینی انڈا قدرے گولائی کی صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔ غالب امکان ہے کہ مشینی انڈے کے نئے ماڈل میں شکل کا یہ فرق دور کرلیا جائے گا اور جس طرح مشینی انسان اور حقیقی انسان میں پہچان مشکل ہے، اسی طرح یہ انڈا بھی پہچانا نہ جاسکے گا۔ اس انڈے میں وہ تمام منرلز اور وٹامنز ڈال دئیے گئے ہیں جو مرغی کے انڈے میں ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ چاہیں تو اسے حلالی انڈے کی بجائے حرامی انڈا کہہ سکتے ہیں، لیکن مشینوں میں تیار کردہ حرامی انڈا اتنا ہی حرامی ہوگا جتنا کہ ان مشینوں میں تیار ہونے والی ادویات، مشینی انڈے میں کیا کیا ڈالا گیا ہے ہم اتنا ہی جانتے ہیں جتنا انڈا تیار کرنے والوں نے ہمیں بتایا ہے۔ معاملہ مختلف ادویات کا ہے جو ہمارے روز مرہ استعمال میں آتی ہیں، ہمیں ہر گز معلوم نہیں کہ ان ادویات کا خمیر یعنی را میٹریل کن اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔
یہ بات تو بالکل واضع ہے کہ ان ادویات میں جڑی بوٹیوں کا عرق شامل نہیں ہوتا یوں یہ ہربل دوائوں میں شمار نہیں کی جا سکتیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ ’’ علاج بالغذا‘‘ کے کوئی سائیڈ ایفکٹ نہیں لیکن گھر کی مرغی کو دال سے بھی حقیر جانتے ہوئے ہم نے اس طریقہ علاج سے منہ موڑ رکھا ہے۔ جانے کیوں دنیا حرام کی طرف مائل ہے اور انسان کی حرام کاریوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے۔ ایک تحقیق نے یہ بات بھی ثابت کر دی ہے کہ آپ جس قسم کا دودھ اور جس قسم کا گوشت کھائیں گے آپ میں اس جانوروں کی سی خصوصیات پیدا ہونا شروع ہو جائینگی ۔ اہل پاکستان نے مری ہوئی مرغی اور کھوتا کڑاہی جس مقدار میں کھائی ہے، اس کا اندازہ اب ہمارے طرز عمل سے کیا جاسکتا ہے ہم میں انسانوں والی خصوصیات کم نظر آتی ہیں۔
قوم مردہ اور ہٹ دھرم ہے طرہ امتیاز یہی ہے، جوتے کھانے پر اعتراض نہیں تاخیر پر مقروض ہے ، جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے بس یہ مطالبہ ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button