CM RizwanColumn

جمہوریت، دولت اور تشدد ۔۔ سی ایم رضوان

سی ایم رضوان

دنیا میں رائج موجودہ جمہوری نظام انسانی دانش کا لاجواب تحفہ ہے۔انسانی معاشرے کو اس خواب کی تعبیر حاصل کرنے کیلئے صدیوں کا سفر طے کرنا پڑا۔ ماضی بعید میں جدید دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں، فلاسفرز اور اہل حل وعقد نے دہائیوں کی علمی و عمرانی تحقیق کیلئے عرق ریزی کر کے دنیا کو جمہوری نظام کا ایک قابل عمل ڈھانچہ ترتیب دے کر فراہم کیا تھا۔ بادشاہتوں اور نسلوں پر محیط آمریتوں کے مظالم کی چکی میں پسی ہوئی عام آبادیوں کو تب کہیں جا کر انسانیت، عزت و وقار، آئین، قانون، شخصی تقدس اور عام آدمی کی رائے کو احترام کی مسند میسر آئی۔ اس سے قبل آمر طاقتوں کی جانب سے جمہوری سوچ کی راہ میں کھڑی کی جانے والی بے شمار رکاوٹیں، مشکلات اور صعوبتیں آئیں اور کاروانِ جمہوریت کو سخت آزمائشوں، مصیبتوں اور سختیوں سے گزرنا پڑاکیونکہ دنیا کے اکثر مکار، چالاک اور بااثر شہنشاہ، جرنیل اور طالع آزما عوام کو حقِ حکومت تفویض کئے جانے کیلئے کسی بھی حال میں آمادہ نہیں تھے۔وہ اپنے اقتدار کے سلسلہ وار خاندانی اور موروثی حق سے کسی بھی صورت دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں تھے۔ لہٰذا وہ ہر اس آواز کو جو ان کے اقتدار کیلئے خطرے کا باعث بنتی یا بن سکتی تھی ملیا میٹ کر دیتے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ وہ انقلابی سوچ کے حامل اہل دانش کو زنجیروں میں جکڑتے، ہاتھیوں کے پاؤں تلے کچلتے اور ان کے خونِ نا حق سے اپنی انا اور اقتدار کی شمشیرِ برہنہ کی پیاس بجھانے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہ کرتے تھے۔ دنیا جانتی ہے کہ اس نوبل کاز کے علمی پرچم برداروں کی شہادتیں،پھانسیاں، جلاوطنیاں اورجیلیں گویا ان حریت پسندوں کا مقدر بنتی تھیں لیکن وہ جرأت مند سرفروش پھر بھی اپنی چنی گئی راہ سے اجتناب اختیار نہیں کرتے تھے اور دوسرے لفظوں میں جمہوریت کا یہ نظام کسی طالع آزما نے اپنی خوشی سے دنیا کو پلیٹ میں رکھ کر نہیں دیا بلکہ طویل علمی و تحقیقی اور سیاسی جدوجہد اور لازوال قربانیوں سے جمہوریت کا یہ کارواں منزل تک پہنچا۔
اس کرہِ ارض پر جمہوری تصور کو حقیقت کا جامہ پہنانے کیلئے جس جس انسان نے بھی اپنا خون دیا، اس پر انسانیت سدا فخر کرتی رہے گی کیونکہ جمہوریت کی روح محروموں، کمزوروں، خاک نشینوں اور ناتوانوں کو انصاف اور برابری کا حق تفویض کرتی ہے۔ جبرو فسطائیت کے دور میں آزادی کی لہر کا حصول ایک غیر معمولی صورتِ حال تھی جو محض اس وجہ سے انسانیت کا مقدر بنی کیونکہ انقلابی لوگ کسی بھی حالت میں اس سے کم پر آمادہ نہیں تھے، شعور اور جمہوریت کا جوش و جنون جب دلوں میں جاگزین ہو جائے تو پھر جان کی پرواہ نہیں کی جاتی۔ بہر حال ناقابلِ فراموش قربانیوں اور لہو کے خراج کے بعد ہی ایسی حسین و جمیل منزل کسی کارواں کا مقدر بنتی ہے۔ جمہوریت در اصل اظہارِ رائے کا نام ہے اور ہر حکومت عوامی منشا، ووٹ اور رائے دہی سے تشکیل پاتی ہے اورہر شہری کو آزادانہ رائے کا اختیار تفویض کرتی ہے۔ جبرو کراہ اور دباؤ کے تحت دی گئی رائے کی آئین و قانون کی نظر میں کوئی وقعت نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہر شہری کے ووٹ کوخفیہ رکھا جاتا ہے تا کہ کوئی امیدوار یا طالع آزما انتخابات میں کسی کو اپنی انتقامی روش کا نشانہ نہ بنا سکے۔ جمہوریت کے نظام میں ووٹ کی خرید و فروخت کی سخت ممانعت ہے لیکن پھر بھی مالدار طبقہ یہ گھٹیا اور گھناؤنا کھیل کھیلنے سے باز نہیں آتا۔ دولت سے ووٹ خریدنے کی روش تیسری دنیا میں عام ہوتی جا رہی ہے اور مجبور و بے بس انسانوں کی بے بسی کو دولت کے ترازو میں تولنے کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے۔ انتخابات میں جس طرح دولت کا بے دریغ استعمال کیا جا تا ہے اس سے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں۔ ایشیا کے اکثرو بیشتر ممالک اس لعنت کے اسیر ہیں۔ ان معاشروں میں رائج طبقاتی تقسیم اس طرح کی خرید و فروخت کو مزید آسان بنا دیتی ہے۔ ووٹوں کی خریدو فروخت بذات خود غریبوں کے ساتھ مذاق کے علاوہ جمہوری نظام کیلئے سنگین خطرہ کی صورت اختیار کر گئی ہے کیونکہ طاقتور گروہ اور جماعتیں دولت کی طاقت سے اپنی مرضی اور منشاء کو بزورِ قوت دوسروں پر مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ جمہوریت میں اسی جبر ِ ناروا کو ہی تو فسطائیت کہتے ہیں۔ دوسروں کی رائے کا جب احترام اٹھ جاتا ہے تو پھر معاشرے تقسیم کا شکار ہو جاتے ہیں۔ انارکی اور خانہ جنگی ایسی ہی منفی سوچ سے جنم لیتی ہے۔ سیاسی مخالفین کی سرِ عام تذلیل اور ان کے گھروں اور ذاتی زندگیوں پر حملے اسی سوچ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ ایک طاقتور سیاست دان اس بات پر اڑ جانا ہے کہ جو ہم کہتے ہیں وہی سچ ہے۔ لہٰذا ہمارے بیان کردہ سچ کو من و عن تسلیم کرنا سب کیلئے لازم ہے۔ جو سیاسی مخالف، صحافی یا دانشور اس کے بیان کردہ سچ کو جھٹلائے گا یا اس کے مخالف دلیل دے گا تو وہ کافر و زندیق اور قابل گردن زدنی ہو گا۔ جمہوریت کے نظام میں یہ ایک متشدد سوچ ہے۔ کیونکہ اختلافِ رائے کو جمہوریت کا حسن گردانا جاتا ہے لیکن موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے اس اختلافی آواز کا بھی غلط استعمال شروع کر دیا ہے مخالفت کی بجائے گندی گالیاں اور بہتان لگانے کے نہ رکنے والے طوفان بدتمیزی نے جمہوریت کے اس حسن کو بھی گہنا دیا ہے۔ اب تو سیاسی مخالفین کا سوشل بائیکاٹ کرنا اور ان سے تعلقات کی
کشیدگی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ ایک دوسرے کو گالیوں سے نوازنا اور ان کی ہر رائے کو گھٹیا، فرسودہ اور بے سرو پا کہہ کر رد کر دینے کے طرزِ عمل پر اب کسی کو بھی پچھتاوا نہیں ہورہا۔ یہی وجہ ہے کہ تحمل، بردباری اور برداشت کا وہ کلچر جو جمہوریت کی اصل روح ہے وہ اب دم توڑ رہا ہے۔ سیاسی لوگ نفرت، عناد اور دشمنی میں اب ساری حدیں عبور کرتے جارہے ہیں جس سے پاکستانی قوم مختلف خانوں میں تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزر رہی ہے۔ حالانکہ کسی بھی قسم کی سیاسی رائے رکھنا ایک قابل برداشت عمل ہے لیکن اس ضمن میں اپنی رائے کو مقدم جاننا اور دوسروں کی رائے کو حقیر جاننا ایک غیر جمہوری روش ہے۔ البتہ اپنی سیاسی رائے پر ڈٹ جانا اور اس کا برملا اظہار کرنا قابلِ ستائش عمل ہے اور یہی روحِ جمہوریت ہے۔ اسی طرح سیاسی مخالفین کی رائے کا احترام بھی جمہوریت کی بنیاد ہے اور جب تک دوسروں کی رائے کو اہمیت نہیں دی جاتی جمہوریت کے مقاصد پورے نہیں ہو سکتے۔ مگر افسوس کہ پاکستان کی کچھ سیاسی جماعتیں اپنے کارکنوں کو تشدد پر ابھارتی ہیں اور دوسروں کی رائے کو وزن دینے اور اس کا احترام کرنے کی تربیت کا کوئی اہتمام نہیں کرتیں بلکہ انہیں جذباتی، سطحی اور غیر منطقی نعروں کا غلام بنالیتی ہیں۔ وہ ان سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سلب کر لیتی ہیں کیونکہ ان کے کارکنوں کی اکثریت تعلیم سے محروم ہوتی ہے اور اگر تعلیم یافتہ بھی ہو تو وہ سیاست اور جمہوریت کے بنیادی اصولوں سے ناآشنا ہوتی ہے۔ ایسی جماعتوں کی متشدد سوچ جمہوری نظام کیلئے حقیقی خطرہ ہوتی ہے۔ دور کیوں جانا ہے ہمارے ایشیا میں موجود ملک سری لنکا ایک زندہ مثال ہے۔ جہاں اسی سوچ کی وجہ سے خانہ جنگی تک نوبت چلی گئی۔ جس سے اس ملک کی سالمیت خطرات کی زد میں چلی گئی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی اسی طرح کی سوچ کے علمبردارتھے، پہلے تو انہوں نے ڈاک سے آنے والے ووٹوں کی گنتی پر اعتراض اٹھایا اور انہیں شمار کرنے کے خلاف امریکی سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی لیکن جب اس میں بھی کامیابی نہ ملی تو نئے منتخب صدر جوبائیڈن کی تقریبِ حلف برداری میں رخنہ اندازی کا وطیرہ اپنایا جس سے چند انسانی جانوں کا ضیاع بھی ہوا لیکن کانگریس نے ڈونلڈ ٹرمپ کی متشدد سوچ اور غیر جمہوری طرزِ عمل کوندامت و ناکامی سے دوچار کیا اور یوں امریکہ کو جمہوری سوچ کی قبا میں ترقی کی منازل طے کرنے والی شاہراہ پر نئی شان و شوکت کے ساتھ محوِ سفر کر دیا۔ اسی طرح فرانسیسی منتقم سیاست دان ہٹلر بھی دوسروں کی رائے کو اہمیت نہیں دیتا تھا جس کی وجہ سے نازی ازم نے جنم لیا تھا اور یوں اس سوچ نے پوری دنیا کو ایک ایسی آگ میں جھونک دیا جس میں کروڑوں انسان لقمہِ اجل بنے۔ نازی ازم دوسروں کی سوچ اور رائے کو رد کرنے اور ہٹ دھرمی کا دوسرا نام ہے۔ دوسری جنگِ عظیم ہٹلر کی اناپرستی کا شاخسانہ ہے جس نے دنیا کے لاکھوں انسانوں کو لہو لہان کر دیاتھا۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ جو قوم، سیاسی اور مذہبی جماعت یا قائد بھی انانیت کی ایسی غلط راہ پر محوِ سفر ہو جاتا ہے۔ اس کا انجام ہٹلر جیسا ہی ہوتا ہے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاست کو ذاتی دشمنی میں بدلنے کی بجائے اس میں افہام و تفہیم اور تحمل کی راہ اپنائی جائے تا کہ ترقی اور خوشخالی پاکستان کا مقدر بن سکے۔ اپنے من پسند قائدین سے محبت اور جانثاری سے کوئی کسی کو نہیں روکتا لیکن اس محبت اور وابستگی کی بنیاد پر اپنی قومی املاک کو جلانا، نقصان پہنچانا اور تہس نہس کرنا کسی صورت بھی قومی خدمت قرار نہیں پا سکتا۔ یاد رہے جو سیاسی قائدین بھی ایسی متشدد سوچ کا درس دینے ہیں اور اپنی چرب زبانی سے اس مہلک چیز کو جو باعثِ ندامت ہے باعثِ فخر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ قابل قبول نہیں۔ ایسی کسی بھی سوچ اور عمل کو معقول نہیں گردانا جا سکتا۔ یہ سوچ جمہوریت کے مقابلے میں تشدد کی کامیابی کی سوچ ہے جس کی ابھی سے گوشمالی ضروری ہے ورنہ کل کلاں پھر دیر ہو جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button